جب اس سال مصر کے صدر حسنی مبارک نے استعفیٰ دیا تو یہ توقع کی جا رہی تھی کہ عرب موسمِ بہار کے جلو میں میڈیا کی آزادی آئے گی۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حال ہی میں قاہرہ میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف حکومت کی کارروائی جیسے واقعات اور سرکاری میڈیا پر فسادات کو جس طرح کوَر کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت کو اب بھی کس قسم کے چیلنج درپیش ہیں۔
احتجاجی مظاہروں کے بارے میں خبریں دیتے ہوئے سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کرنے والے لوگ مسلح تھے۔ سرکاری میڈیا نے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ وہ باہر نکلیں اور فوج کی حمایت کریں۔
عادل اسکندر واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں عرب میڈیا کے تجزیہ کار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک لحاظ سے اس بات کی یاد دہانی تھی کہ سرکاری میڈیا، سرکاری براڈکاسٹرز، سرکاری صحافتی ادارے ان میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ خبروں کا جو حشر کرتے ہیں اس میں اور زیادہ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔‘‘
غیر جانبدار خبری تنظیموں نے احتجاجی مظاہروں کے بارے میں سرکاری میڈیا کی رپورٹوں سے اختلاف کیا۔ فوج نے خود اپنی نیوز کانفرنس منعقد کی اور سرکاری میڈیا کے کوریج کی تعریف کی۔
مصری صحافیوں کے مطابق عبوری کونسل نے بہت سے موقعوں پر پروگراموں میں دخل دیا ہے۔ یوسیری فاؤدہ نے حال ہی میں آزادیٔ اظہار کو کچلنے کی سرکاری کوششوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنا مقبول ٹاک شو ’’دی فائنل ورلڈ‘‘غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا۔ عادل اسکندر کہتے ہیں کہ ’’ہم میڈیا کے اداروں اور فوج کے درمیان یہ رسہ کشی دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا واقعات کی رپورٹنگ میں اپنی آزادی کا استعمال کرنا چاہتا ہے اور فوج کی کوشش ہے کہ سیاسی صورتِ حال پر کنٹرول رکھے تا کہ معاملات قابو سے باہر نہ ہو جائیں۔‘‘
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے گروپ فریڈم ہاؤس کی کیرن کارلے کر اس رائے سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ’’عبوری فوجی حکومت میں اصلاحات کا جذبہ بیدار نہیں ہوا ہے۔ فوج نے کافی لوگوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ انٹرنیٹ کے بلاگرز کی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور دوسری قانونی پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کا مطلب یہ نکلتا ہے فوجی حکومت پر کوئی تنقید نہیں کر سکتا۔‘‘
کیرن کہتی ہیں کہ میڈیا میں اصلاح کے امکانات تیونس میں بہتر نظر آتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں سے علاقے میں حکومتوں کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں، اور جہاں گذشتہ اتوار کو تاریخی انتخابات ہوئے۔ ’’تیونس نے حال ہی میں اطلاعات کی آزادی کا قانون منظور کیا ہے جو بڑا اچھا قدم ہے۔ قانونی اور ضابطوں کی اصلاحات پر تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔ بہت سے مقامی گروپوں، یونینوں اور پریس کی آزادی کی تنظیموں نے اس بحث میں حصہ لیا ہے۔‘‘
شام میں جہاں مہینوں سے تحریک چل رہی ہے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ براڈکاسٹ میڈیا پر جگہ اتنی محدود ہے کہ صرف انٹرنیٹ ہی اطلاعات کا ذریعہ ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے عادل اسکندر کہتے ہیں کہ ’’ہم اس احتجاجی تحریک کی بات کر رہے ہیں جو فروری کے وسط میں شروع ہوئی تھی ۔ یہ کافی طویل عرصہ ہے جس میں قابلِ اعتبار اطلاعات مل جانی چاہئیے تھیں جن کی آسانی سے تصدیق ہو سکتی تھی۔‘‘
میڈیا کے تجزیہ کار کہتے ہیں شام میں میڈیا کی اتنی محدود آزادی کے باوجود، احتجاجی مظاہروں کا اتنے طویل عرصے تک جاری رہنا بڑی حیرت کی بات ہے ۔