پشتون تحفظ تحریک یا ’پی ٹی ایم ‘ کے مرکزی رہنما ابرہیم ارمان لونی کے مبینہ قتل کے خلاف بلوچستان کے شمالی اضلاع میں ہڑتال کی گئی۔
پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ ارمان لونی کو پولیس نے قتل کیا جبکہ پولیس کا موقف یہ ہے کہ ان کا انتقال ہارٹ اٹیک کے سبب ہوا۔
ارمان لونی کی بہن وارنگا لونی کا موقف
وائس آف امریکہ اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں گفتگو کرتے ہوئے ارمان لونی کی بہن وارنگا لونی نے کہا کہ نہ صرف ان کے بھائی کو قتل کیا گیا بلکہ ان کی ایف آئی آربھی در ج نہیں کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لورالائی میں ہونے والے دھماکے کے خلاف وہاں دھرنا ہو رہا تھا اور جب مذاکرات کے بعد لوگ دھرنا ختم کر کے اٹھے تو پولیس والوں اور وردیوں میں ملبوس لوگوں نے ان پر حملہ کی، تشدد کیا اور انہیں زبردستی گرفتار کر کے گاڑیوں میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اس سے ہنگامہ بڑھ گیا تو پیچھے سے ارمان لونی کے سر پر وار کیا گیا جس سے وانگا لونی کے بقول ان کے بھائی ارمان کی جان جاتی رہی۔
اس سوال کے جواب میں کہ پولیس کا کہنا ہے لونی کی ہلاکت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔ کیا پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آ گئی ہے۔ وارنگا لونی نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آئندہ چند روز میں آ جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس جو چاہے کہتی رہے لیکن بقول ان کے حقیقت یہ ہی ہے کہ لونی موت تشدد کے باعث ہوئی ہے۔ انہوں کہا کہ وہ صحت مند تھے اس لئے انہیں ہارٹ اٹیک کیسے ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جا رہی ہے۔
آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس وقت تین دن کا لائحہ عمل طے کیا گیا ہے جس میں احتجاج جاری رکھا جائے گا۔ اور اگر تین دن میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء لانگو کا موقف
اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ می ضیاء لانگو نے کہا کہ یہ واقعہ کسی پوشیدہ جگہ نہیں ہوا۔ یہ سب کے سامنے دن دھاڑے ہوا ہے۔ دفعہ 44 کی خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس پر حملہ کیا گیا اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھرنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے خلاف نا مناسب الفاظ استعمال کئے گئے۔
انہوں نے کہا اس معاملے کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں بقول ان کے آگ پھیلانے کی سازش کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آئے گی تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح عام لوگوں کے حقوق ہیں اسی طرح پولیس کے بھی حقوق ہیں۔ پولیس بھی اپنی ایف آئی آر درج کرانا چاہتی ہے۔ ہم نے ایف آئی آر کا معاملہ تحقیقات مکمل ہونے تک اٹھا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم تحقیقاتی ٹیم بنا رہے ہیں اور رپورٹ قوم کے سامنے لائیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ تحقیقات کوئی ٹیم کرے گی یا اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ دوسرے عہدیداروں سے مشورہ کر کے اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔ اور ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ جو بھی قصور وار ثابت ہوا، اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:
https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675