ایک تاریخی واقعے کے مطابق جنگ عظیم اول کے دوران جب سلطنت عثمانیہ کا ا شیرازہ بکھرا تو آرمینیا کے لگ بھگ 15 لاکھ شہری ہلاک ہوئے ۔ بہت سے مورخین اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ترکی اس سے اختلاف کرتا ہے جسے ان مظالم پر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اب جب24 ا پریل کو دنیا بھر میں آرمینیا کے شہر ی اس واقعے کی 102ویں برسی منا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں موجود آرمینیا کے شہری ان لاکھوں افراد کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو جنگ عظیم اول میں اس واقعے میں ہلاک ہوئے جسے وہ سلطنت عثمانیہ کی جانب سے قتل عام قرار دیتے ہیں ۔ جب کہ ترکی اس کی ترديد کرتا ہے ۔ امریکہ میں آرمینیا کے سفیر گریگو ہوہنسین کہتے ہیں کہ ہم آج کے جدید دور کے ترکوں کو 102 سال قبل ہونے والے واقعے کا إلزام نہیں دیتے لیکن اس ملک کی قیادت کی، جو سلطنت عثمانیہ کی جانشینی کی دعوے دار ہے، یہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے سے نمٹے۔
آرمینیا کے شہری ان کے بقول بہت سی چیزوں کے لئے شکر گزار ہیں ۔سفیر کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت کہ ہم زندہ بچ نکلے، دنیا میں آرمینیا کے شہری موجود ہیں، آرمینیا کی ایک جمہوریہ اپنا وجود رکھتی ہے، یہ ایک چھوٹا ملک ہے لیکن پھر بھی وہ ابھی تک اپنا وجود ر کھتا ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے، تو واقعی بظاہر قتل عام کا ارادہ ناکام ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جس کی ہم یاد مناتے ہیں اور جس کے لیے ہم لڑتے ہیں ۔
ترکی کا کہنا ہے ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اور ہلاک ہونے والے خانہ جنگی اور بد امنی کا شکار ہوئے تھے ۔ دو سال قبل ترک وزیر اعظم نے دونوں فریقوں کو چھان بین کی دعوت دی تھی۔
ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ اگر آپ آرمینیا کے مسئلے کو زیر بحث لانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے واقعے کو حقائق کے مطابق پیش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ مورخین کا کام ہے۔ ہم اپنے تاریخی ریکارڈ کھو ل رہے ہیں ۔ آرمینیا کو بھی اپنے تاریخی ریکارڈ کھولنے چاہییں اگر وہ ان کے پاس موجود ہیں۔
اگرچہ ان مظالم کو اقوام متحدہ، پوپ اور بہت سے ملکوں نے بڑے پیمانے پر قتل عام کے طور پر تسلیم کیا ہے تاہم امریکہ کی حالیہ انتظامیہ نے اس لفظ کے استعمال سے گریز کیا ہے۔
کارنیگی اینڈومینٹ فار انٹر نیشنل پیس کے تھامس ڈی وال کہتے ہیں کہ اس جنگ میں بہت سے ترک ہلاک ہوئے ۔ کچھ روسی فوج کے ہاتھوں ۔ ترکی اس وقت خود مقبوضہ علاقہ تھا اور ٹوٹ چکا تھا۔ اس لیے آرمینیا کے شہری خود دشمن کے طور پر شناخت کیے گئے تھے۔
تاہم تھامس کہتے ہیں کہ ترک اب چیزوں کو مختلف انداز سے دیکھنا شروع کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک مورخین اور دانشوروں نے اس کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا ہے ۔ ترکی میں کتابیں شائع ہو رہی ہیں ۔ اس سال کے شروع میں میری اپنی کتاب شائع ہوئی جس کے بارے میں چند سال پہلے تک سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا تو معاشرہ قدرے تبدیل ہو چکا ہے۔
اسی دوران پہلی جنگ عظیم کے دوران آرمینیا کے شہریوں کے قتل عام اور ان کی وطن واپسی کے پس منظر کے خلاف تیار کی گئی فلم دی پرامس اس واقعے کو فلم بینوں کے سامنے لا رہی ہے۔