|
پشاور -- پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے دوران سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق پیر کو آرمی چیف نے خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جس میں صوبے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت کے خلاف سیاسی اتفاقِ رائے اور عوامی حمایت ناگزیر ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے سیاسی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلایا۔
آرمی چیف سے ملاقات کرنے والوں میں وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی، امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عطاء الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایمل ولی خان، سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان، سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور سابق وزیرِ اعلٰی امیر حیدر خان ہوتی بھی شامل تھے۔
وفاقی حکومت کی نمائندگی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کی۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف مخبروں کی اطلاع پر انٹیلی جینس بیسڈ کارروائی کی جائے گی۔
'فوج سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج خیبرپختونخوا میں جاری فوجی کارروائیوں کے تناظر میں سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ جس طرح 2014 میں آرمی پبلک اسکول واقعے کے بعد فوج نے سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل کی تھی، اسی طرح اب دوبارہ فوج سیاست دانوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ حکومت یا سیکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے بارے میں پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ پشتون قومی جرگے کے اعلامیے میں طالبان اور فوج کو پختونوں کی سرزمین سے نکلنے اور جنگ ختم کرنے کا کہا تھا۔ اسی تناظر میں اب فوج نے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف جاری انٹیلی جینس بیسڈ کارروائی میں عوامی حمایت کے حصول کے لیے سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
آرمی چیف کی سیاسی رہنماؤں سے کیا بات ہوئی؟
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور اس کے نیٹ ورک کے خلاف متحد ہیں اور سیکیورٹی فورسز نے اس فتنے کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
ان کے بقول لگن، عزم اور قربانیوں کے ساتھ اس فتنے پر قابو پا لیں گے۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہماری افواج نے دہشت گردوں کے لیڈروں کا خاتمہ یقینی بنایا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کا ڈھانچہ تباہ اور ان کے سہولت کاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی اس سر زمین پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
اجلاس میں شرکت کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر کئی رہنماؤں نے کھل کر تحفظات کا اظہار کیا۔ مگر فوج کے سربراہ نے سیاسی رہنماؤں کو یقین دلایا کہ انٹیلی جینس بیسڈ کارروائی نہایت ٹارگٹڈ اور نتیجہ خیز ہو گی۔
اجلاس کے دوران جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں نے عسکریت پسندوں کے خلاف مجوزہ فوجی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ مگر جنرل عاصم منیر نے انہیں واضح الفاظ میں کہا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے بھی دہشت گردی اور تشدد کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عسکریت پسندی کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی پر زور دیا۔
اسی طرح ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے عسکریت پسندوں میں عسکری اداروں کی پسند اور ناپسند پر تنقید کی اور کہا کہ اب بھی 'گڈ طالبان' کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔
ایک رہنما نے عسکری قیادت کی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ نشست کو خوش آئند قرار دیا۔
اُنہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے سیاسی رہنماؤں کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے سے ہی بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا اور گورنر فیصل کریم کنڈی کے درمیان تکرار بھی ہوئی۔ تاہم آرمی چیف اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
آرمی چیف کی خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت سے ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب چند روز قبل کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 17 ملازمین کو اغوا کر لیا تھا۔ سیکیورٹی فورسز نے آٹھ اہلکاروں کو بازیاب کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان فوج کے ذیلی اداروں سے وابستہ اہلکاروں کو بھی نشانہ بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔