دنیا میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہونے کے با وجود، جنوبی مشرقی ایشیا کے ملکوں نے ٹھوس اقتصادی ترقی کی ہے۔
بنکاک —
جنوب مشرقی ایشیا کے لیڈر اس ہفتے برونائی میں ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشیئن نیشنز یا آسیان کے سالانہ سربراہ اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ یہ علاقائی گروپ اقتصادی یکجہتی کے منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھنے اور ساؤتھ چائنا سی میں متنازع علاقے کے بارے میں چین کے ساتھ اختلافات دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
آسیان نے یورپی یونین کی طرح ، ایک اقتصادی برادری کی تشکیل کے لیے2015 کے آخر تک کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ہے۔
اگرچہ ان ملکوں نے بہت سے محصولات پہلے ہی کم کر دیے ہیں، لیکن بعض تجزیہ کاروں کو یقین نہیں کہ یہ علاقہ اشیاء، خدمات اور کارکنوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے پوری طرح تیار ہو گا۔
روڈولفو سرویرینو آسیان کے سابق سیکریٹری جنرل ہیں اور آج کل سنگا پور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین اسٹڈیز میں آسیان اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے ان لوگوں کو انتباہ کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اقتصادی یکجائی کی رفتار بہت سست ہے۔
’’بعض لوگ بہت بے صبرے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آسیان کو فوری طور پر اپنے داخلی طریقۂ کار کو تبدیل کر لینا چاہیئے تا کہ اقتصادی یکجائی مکمل ہو جائے۔ لیکن ایسا کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔‘‘
دنیا میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہونے کے با وجود، جنوبی مشرقی ایشیا کے ملکوں نے ٹھوس اقتصادی ترقی کی ہے۔ لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ کیا علاقے کی انتہائی ترقی یافتہ معیشتیں، جیسے سنگا پور اور برونائی، ایسے ملکوں کے ساتھ یکجا ہو سکتی ہیں جنھوں نے ابھی حال ہی میں اپنی معیشتوں کو سرمایہ کاری اور غیر ملکی تجارت کے لیے کھولا ہے۔ لاؤس اور برما ایسے ملکوں کی مثالیں ہیں۔
آسیان کے ارکان میں کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام بھی شامل ہیں۔
آسیان کے لیڈروں سے یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ گذشتہ سال Phnom Penh کی میٹنگ میں جو اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
میزبان ملک کمبوڈیا نے ساؤتھ چائنا سی میں بیجنگ کے جارحانہ علاقائی دعوؤں کے بارے میں ایک بیان کو رکوا کر ، چین کی طرفداری کی ۔
آسیان کی 45 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ چیئر مین کی طرف سے کوئی ایسا بیان جاری نہیں کیا گیا جس سے اس گروپ میں اتفاقِ رائے کا اظہار ہوتا ہو ۔
چین پورے ساؤتھ چائنا سی کا دعویدار ہے۔ اس طرح اس کا ٹکراؤ تائیوان، نیز برونائی، ملا ئیشیا ، فلپائن اور ویتنام سے ہوتا ہے۔
بنکاک میں سنٹر فار آسیان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پراپاٹ تھیپچاٹری کہتے ہیں ’’اختلافات کی وجہ سے گذشتہ سال آسیان کے لیے اچھا سال نہیں تھا ۔ لیکن اس سال، جیسا کہ آپ آسیان کے ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے نتائج سے دیکھ سکتے ہیں، آسیان نے ایک بار پھر مشترکہ موقف اختیار کیا ہے۔‘‘
اس مہینے کے شروع میں، آسیان کے وزرائے خارجہ نے اپنی برونائی کی میٹنگ میں، اس بات پر اتفاق کیا کہ چین کے ساتھ ساؤتھ چائنا سی کے بارے میں ایک ضابطۂ اخلاق کے بارے میں بات چیت کی جائے۔
چین نے ساؤتھ چائنا سی کے معدنی دولت، تیل اور ماہی گیری کے بارے میں اپنے دعوؤں پر زور دینے کے لیے، سمندر میں گشت میں، اور اپنے ماہی گیری کے بیڑوں کے لیے حفاظتی جہازوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔
آسیان کی تنظیم چاہتی ہے کہ اس قسم کے جارحانہ اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی ایسا سمجھوتہ ہو جائے جس کی پابندی قانونی طور پر لازمی ہو۔علاقائی کشیدگیوں کے با وجود، سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آسیان کا میزبان ملک برونائی اتفاقِ رائے کی روایت کو واپس لے آئے گا، اورمعاشیات اور تجارت کے بارے میں سمجھوتوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔
اگرچہ گذشتہ سال کمبوڈیا میں آسیان کی سربراہ کانفرنسیں چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے ماند پڑ گئی تھیں، لیکن ان میں ایک کامیابی بھی ہوئی تھی ۔ یہ آزاد تجارت کی تجویز تھی جسے ریجنل کمپریہنسوو اکنامک پارٹنرشپ یا آر سی ای پی یا کہا جاتا ہے۔
آر سی ای پی کو امریکہ کے مقابلے کی تنظیم ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کا حریف سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ان دونوں تنظیموں میں آسیان کے ارکان، برونائی، ملائشیا، سنگا پور اور ویتنام، نیز آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، جاپان اور کوریا شامل ہیں۔
لیکن ٹی پی پی کے برعکس آرسی ای پی میں چین بھی شامل ہے جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت، اور سب سے زیادہ تجارت کرنے والا ملک ہے ۔
آسیان نے یورپی یونین کی طرح ، ایک اقتصادی برادری کی تشکیل کے لیے2015 کے آخر تک کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ہے۔
اگرچہ ان ملکوں نے بہت سے محصولات پہلے ہی کم کر دیے ہیں، لیکن بعض تجزیہ کاروں کو یقین نہیں کہ یہ علاقہ اشیاء، خدمات اور کارکنوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے پوری طرح تیار ہو گا۔
روڈولفو سرویرینو آسیان کے سابق سیکریٹری جنرل ہیں اور آج کل سنگا پور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین اسٹڈیز میں آسیان اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے ان لوگوں کو انتباہ کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اقتصادی یکجائی کی رفتار بہت سست ہے۔
’’بعض لوگ بہت بے صبرے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آسیان کو فوری طور پر اپنے داخلی طریقۂ کار کو تبدیل کر لینا چاہیئے تا کہ اقتصادی یکجائی مکمل ہو جائے۔ لیکن ایسا کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔‘‘
دنیا میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہونے کے با وجود، جنوبی مشرقی ایشیا کے ملکوں نے ٹھوس اقتصادی ترقی کی ہے۔ لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ کیا علاقے کی انتہائی ترقی یافتہ معیشتیں، جیسے سنگا پور اور برونائی، ایسے ملکوں کے ساتھ یکجا ہو سکتی ہیں جنھوں نے ابھی حال ہی میں اپنی معیشتوں کو سرمایہ کاری اور غیر ملکی تجارت کے لیے کھولا ہے۔ لاؤس اور برما ایسے ملکوں کی مثالیں ہیں۔
آسیان کے ارکان میں کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام بھی شامل ہیں۔
آسیان کے لیڈروں سے یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ گذشتہ سال Phnom Penh کی میٹنگ میں جو اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
میزبان ملک کمبوڈیا نے ساؤتھ چائنا سی میں بیجنگ کے جارحانہ علاقائی دعوؤں کے بارے میں ایک بیان کو رکوا کر ، چین کی طرفداری کی ۔
آسیان کی 45 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ چیئر مین کی طرف سے کوئی ایسا بیان جاری نہیں کیا گیا جس سے اس گروپ میں اتفاقِ رائے کا اظہار ہوتا ہو ۔
چین پورے ساؤتھ چائنا سی کا دعویدار ہے۔ اس طرح اس کا ٹکراؤ تائیوان، نیز برونائی، ملا ئیشیا ، فلپائن اور ویتنام سے ہوتا ہے۔
بنکاک میں سنٹر فار آسیان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پراپاٹ تھیپچاٹری کہتے ہیں ’’اختلافات کی وجہ سے گذشتہ سال آسیان کے لیے اچھا سال نہیں تھا ۔ لیکن اس سال، جیسا کہ آپ آسیان کے ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے نتائج سے دیکھ سکتے ہیں، آسیان نے ایک بار پھر مشترکہ موقف اختیار کیا ہے۔‘‘
اس مہینے کے شروع میں، آسیان کے وزرائے خارجہ نے اپنی برونائی کی میٹنگ میں، اس بات پر اتفاق کیا کہ چین کے ساتھ ساؤتھ چائنا سی کے بارے میں ایک ضابطۂ اخلاق کے بارے میں بات چیت کی جائے۔
چین نے ساؤتھ چائنا سی کے معدنی دولت، تیل اور ماہی گیری کے بارے میں اپنے دعوؤں پر زور دینے کے لیے، سمندر میں گشت میں، اور اپنے ماہی گیری کے بیڑوں کے لیے حفاظتی جہازوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔
آسیان کی تنظیم چاہتی ہے کہ اس قسم کے جارحانہ اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی ایسا سمجھوتہ ہو جائے جس کی پابندی قانونی طور پر لازمی ہو۔علاقائی کشیدگیوں کے با وجود، سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آسیان کا میزبان ملک برونائی اتفاقِ رائے کی روایت کو واپس لے آئے گا، اورمعاشیات اور تجارت کے بارے میں سمجھوتوں پر توجہ مرکوز کرے گا۔
اگرچہ گذشتہ سال کمبوڈیا میں آسیان کی سربراہ کانفرنسیں چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے ماند پڑ گئی تھیں، لیکن ان میں ایک کامیابی بھی ہوئی تھی ۔ یہ آزاد تجارت کی تجویز تھی جسے ریجنل کمپریہنسوو اکنامک پارٹنرشپ یا آر سی ای پی یا کہا جاتا ہے۔
آر سی ای پی کو امریکہ کے مقابلے کی تنظیم ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کا حریف سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ان دونوں تنظیموں میں آسیان کے ارکان، برونائی، ملائشیا، سنگا پور اور ویتنام، نیز آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، جاپان اور کوریا شامل ہیں۔
لیکن ٹی پی پی کے برعکس آرسی ای پی میں چین بھی شامل ہے جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت، اور سب سے زیادہ تجارت کرنے والا ملک ہے ۔