پاکستان کی حکومت نے آسیہ بی بی کے جیل سے رہائی کے بعد بیرون ملک جانے کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آسیہ آزاد شہری ہیں اور حکومتِ پاکستان کے تحفظ میں ہیں۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ آسیہ بی بی ہاکستان میں ہیں۔ تاہم، انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں کس محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ توہین عدالت کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے بری ہونے کے فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو گذشتہ رات ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
ملتان کے سینیر صحافی جمشید رضوانی نے’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا تھا کہ آسیہ بی بی کو طیارے کے ذریعے اسلام آباد روانہ کیا گیا، جب کہ ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لیے بعض غیر ملکی بھی موجود تھے۔
بعض اطلاعات کے مطابق، آسیہ بی بی کو ملتان جیل سے رہا کرنے کے بعد راولپنڈی کے نورخان ایئر بیس لایا گیا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہو گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل، خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو سرکاری اہل کاروں کے حوالے سے یہ خبر جاری کی کہ’’ آسیہ بی بی کو ایک دوسرے صوبے کے نامعلوم مقام سے رہا کرنے کے بعد سکیورٹی وجوہ کی بنا پر اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے‘‘۔
ایک اہل کار نے بتایا کہ سیکیورٹی کے سخت حصار میں آسیہ بی بی کو ہوائی جہاز کے ذریعے دارالحکومت لایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایئرپورٹ جانے والی سڑک کی سکیورٹی فوج نے سنبھال رکھی تھی۔
سوشل میڈیا پر بھی آسیہ بی بی کی یورپی ملک روانگی کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور کئی لوگ اس بارے میں ٹویٹ بھی کر رہے ہیں۔
اسی بارے میں یورپی پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تجانی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ آسیہ بی بی جیل سے رہا ہو گئی ہیں جس پر ہم پاکستانی حکومت کے شکر گزار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ان سے اور ان کے خاندان سے یورپی پارلیمنٹ میں ملنے کا منتظر ہوں‘‘۔
اپنی ایک اور ٹویٹ میں انتونیو تجانی نے کہا ہے کہ میں نے پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ انہیں ضروری سفری دستاویزات فراہم کر دی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کا قانون ایسے افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے جنہیں اپنے عقیدے کی بنا پر زندگی کے خطرات لاحق ہوں۔
تاہم، پاکستانی حکام ان خبروں کی تردید کر رہے ہیں کہ آسیہ بی بی نیدر لینڈز چلی گئی ہیں۔ صحافی عادل شاہزیب نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی نائب برائے میڈیا افتخار درانی سے بات کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی ابھی پاکستان میں ہی ہیں۔
دوسری جانب ’تحریک لبیک پاکستان‘ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’’آسیہ بی بی کی رہائی اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو حکومت نے ہم سے کیا تھا۔ معاہدے کی رو سے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنا ضروری ہے، تاکہ وہ بیرون ملک نہ جا سکے‘‘۔
بعض اطلاعات کے مطابق گذشتہ ماہ حکام نے بتایا تھا کہ دو قیدیوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر اُن کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ تب سے پنجاب میں واقع اس جیل کی سکیورٹی اضافی پولیس فورس اور فوج نے سنبھال لی تھی۔
آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو توہین مذہب کے مقدمے میں بری کر کے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد ’تحریک لبیک‘ نے فیصلے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا اور مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
ہنگامہ ختم کرانے کے لیے حکومت نے ’تحریک لبیک‘ سے جو معاہدہ کیا، اس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ آسیہ بی بی کا نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں ڈالا جائے گا۔ بعد میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصي گفتگو میں کہا کہ آسیہ بی بی کا نام ’اِی سی ایل‘ میں نہیں ڈالا جا رہا۔
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک جان کو لاحق خطرے کی وجہ سے پہلے ہی بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔
آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام جون 2009ء میں لگایا گیا تھا۔ ایک سال بعد انھیں ایک عدالت نے سزائے موت سنائی اور لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا۔ لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے ان کی اپیل کی سماعت کے بعد انھیں بری کر کے رہا کرنے کا حکم دیا۔
دوسری جانب کراچی سے ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کی ایک رپورٹ کے مطابق، آسیہ بی بی کی توہین مذہب کیس میں رہائی کے بعد پاکستان کے مذہبی طبقات کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلس عمل کے تحت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ بیرونی دباؤ پر کیا گیا۔ پوری قوم اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے‘‘۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’گستاخ رسول کو کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔ پارلیمینٹ کے حلف نامے میں تبدیلی اور ملک میں اسرائیلی پرچم لہرانے کی سازش ناکام بنادیں گے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی لابنگ ہورہی ہے۔ ہم ایسی کسی بھی سازش کو ناکام بنادیں گے‘‘۔
مولانا فضل الرحمان کے مطابق، متحدہ مجلس عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی تحریک چلا رہی ہے۔ توہین رسالت اور گستاخ رسول کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ ملک کو لبرل نہیں بنانے دیں گے۔ ناموس رسالت کی یہ تحریک اب رکنے والی نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’تحفظ ناموس رسالت‘ کے لیے بعد نماز جمعہ ملک بھر کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ لاہور میں 15 نومبر اور 25 نومبر کو سکھر میں ’تحفظ ناموس رسالت ملین مارچ‘ ہوگا۔