گزشتہ عشرے کے دوران ایشیا کے بہت سے ملکوں نے شاندار اقتصادی ترقی کی ہے۔ اس کے باوجود، کرپشن کے انسداد کے بین الاقوامی معیاروں میں ان کا درجہ بہت نیچے ہے۔
بینکاک —
ایشیا کی ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کے لیے کرپشن مسلسل ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بعض مقامات پر عوام نے کرپشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے اقتصادی ترقی کے شعبے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
اگرچہ ایشیا میں اقتصادی ترقی کے امکانات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی نجی شعبے اور اقوامِ متحدہ کی طرف سےاصلاحات کے مطالبے بھی کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ سال جب احتجاجی مظاہرین بینکاک کی سڑکوں پر نکل آئے، تو وزیراعظم ینگلک شنیواترا کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تھائی لینڈ میں بڑھتے ہوئے کرپشن کی طرف توجہ دے۔
ایک اناسی سالہ بزنس مین نے کہا کہ تھائی لینڈ میں کاروبار کرنا روز بروزمشکل ہوتا جا رہا ہے اور سرکاری عہدے دار زیادہ رشوت طلب کرنے لگے ہیں۔
‘‘میں ایک صنعتکار ہوں ۔ میں اب مزید کاروبار نہیں کر سکتا کیوں کہ ہمیں چوری چھپے بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ رشوت پہلے بھی دی جاتی تھی لیکن یہ تقریباً پانچ اور دس فیصد کے درمیان ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ کم از کم 30 فیصد ہو گئی ہے۔’’
یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ کرپشن کی وجہ سے کتنی اقتصادی سرگرمیوں کا نقصان ہوتا ہے، لیکن یونیورسٹی آف دی تھائی چیمبر آف کامرس کی حالیہ تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس سال مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد سے زیادہ حصہ یا 11 ارب ڈالر کرپشن کی نذر ہو جائیں گے۔
یونیورسٹی نے کہا کہ سروے میں شامل پرائیویٹ سیکٹر کے بہت سے لوگوں نے کہا کہ انہیں سرکاری کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کو اب رشوت میں زیادہ رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
تھائی لینڈ کی ماہرِ معاشیات پاسیک پونگ پیچیٹ کہتی ہیں کہ اگرچہ ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ حکام نے نچلی سطح پر کرپشن کم کرنے میں کچھ پیش رفت کی ہے، عالمی معیشت میں انحطاط کا مطلب یہ ہے کہ منافع بخش سرکاری کنٹریکٹس کے لیے مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
‘‘عالمگیریت کی وجہ سے، تھائی لینڈ میں بین الاقوامی دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اسے اپنے کاروباری معاملات میں زیادہ شفاف ہونا چاہیئے، اور مختلف سرکاری محکمے اس سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز فوراً درست ہو جائے گی۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ عالمی معیشت سست ہوتی جا رہی ہے اور مقامی بزنس میں مسابقت کا رجحان بڑھ رہا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ بعض کیسوں میں ، زیادہ مقابلے کی وجہ سے ، کرپشن میں اضافہ ہو گیا ہے۔’’
سینٹرل بینک کے ایک سابق ڈپٹی گورنر اور تھائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائریکٹرز کے موجودہ صدر بیڈیڈ نیجاتھاورن کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ دس سال پہلے کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں کرپشن اب زیادہ بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
‘‘کرپشن ایک عالمی مسئلہ ہے۔ آپ کرپشن کے بارے میں بہت سے ملکوں میں شہ سرخیاں دیکھیں گے ۔ انفرادی ملکوں کی قومی تنظیمیں اور حکومتیں اس عالمی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تھائی لینڈ میں ایسا لگتا ہے کہ 10 برس پہلے کے مقابلےمیں یہ مسئلہ اور زیادہ سنگین ہو گیا ہے۔’’
گزشتہ عشرے کے دوران ایشیا کے بہت سے ملکوں نے شاندار اقتصادی ترقی کی ہے۔ اس کے باوجود، کرپشن کے انسداد کے بین الاقوامی معیاروں میں ان کا درجہ بہت نیچے ہے ۔
امریکہ میں قائم سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف چین میں ہی، 2001 اور 2010 کے دوران، دو اعشاریہ سات چار ٹریلین ڈالر کے غیر قانونی فنڈز ملک سے باہر چلے گئے۔
فنڈز کی یہ منتقلی مجرمانہ مالیاتی اسکیموں، کرپشن، ٹیکس کی چوری یا دوسری غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے عمل میں آئی ۔ تھائی لینڈ میں اسی عرصے کے دوران، 64 ارب ڈالر کی رقم غیر قانونی طور پر ملک سے باہر منتقل کر دی گئی ۔ بھارت میں جہاں گذشتہ سال کرپشن کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے، یہ رقم 123 ارب ڈالر تھی۔
اقوامِ متحدہ کے ‘آفس آن ڈرگس اینڈ کرائم’ (یواین او ڈی سی) کے انسدادِ کرپشن کے علاقائی مشیر شیرون میجلسی کہتے ہیں کہ عالمی معیشت میں ایشیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیشِ نظر کرپشن پر نظر رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
‘‘عام طور سے جب اتنی تیز اقتصادی ترقی ہو رہی ہوتی ہے جو ہم اس علاقے میں دیکھ رہے ہیں تو اس کے ساتھ ہی کرپشن کے چیلنچ اور مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب پیسے کا لین دین زیادہ ہوگا، بڑے بڑے کنٹریکٹ ہوں گے، زیادہ سامان کی خرید و فروخت ہوگی، تو کرپشن کے مواقع بھی بڑھ جائیں گے۔ لہٰذا بد عنوانی کی روک تھام کے زیادہ سخت نظام کی ضرورت ہوگی۔’’
2003 میں اقوامِ متحدہ نے کرپشن کے خلاف ایک کنونشن منظور کیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں برما نے گذشتہ دسمبر میں اس کنونشن کی توثیق کی۔
ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشنز یعنی آسیان کے دس رکن ممالک میں ایسا کرنے والا وہ آخری ملک تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں اور نجی شعبے کے اداروں کو بھی شامل ہونا چاہیئے۔
اگرچہ ایشیا میں اقتصادی ترقی کے امکانات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی نجی شعبے اور اقوامِ متحدہ کی طرف سےاصلاحات کے مطالبے بھی کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ سال جب احتجاجی مظاہرین بینکاک کی سڑکوں پر نکل آئے، تو وزیراعظم ینگلک شنیواترا کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تھائی لینڈ میں بڑھتے ہوئے کرپشن کی طرف توجہ دے۔
ایک اناسی سالہ بزنس مین نے کہا کہ تھائی لینڈ میں کاروبار کرنا روز بروزمشکل ہوتا جا رہا ہے اور سرکاری عہدے دار زیادہ رشوت طلب کرنے لگے ہیں۔
‘‘میں ایک صنعتکار ہوں ۔ میں اب مزید کاروبار نہیں کر سکتا کیوں کہ ہمیں چوری چھپے بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ رشوت پہلے بھی دی جاتی تھی لیکن یہ تقریباً پانچ اور دس فیصد کے درمیان ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ کم از کم 30 فیصد ہو گئی ہے۔’’
یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ کرپشن کی وجہ سے کتنی اقتصادی سرگرمیوں کا نقصان ہوتا ہے، لیکن یونیورسٹی آف دی تھائی چیمبر آف کامرس کی حالیہ تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس سال مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد سے زیادہ حصہ یا 11 ارب ڈالر کرپشن کی نذر ہو جائیں گے۔
یونیورسٹی نے کہا کہ سروے میں شامل پرائیویٹ سیکٹر کے بہت سے لوگوں نے کہا کہ انہیں سرکاری کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کو اب رشوت میں زیادہ رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
تھائی لینڈ کی ماہرِ معاشیات پاسیک پونگ پیچیٹ کہتی ہیں کہ اگرچہ ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ حکام نے نچلی سطح پر کرپشن کم کرنے میں کچھ پیش رفت کی ہے، عالمی معیشت میں انحطاط کا مطلب یہ ہے کہ منافع بخش سرکاری کنٹریکٹس کے لیے مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
‘‘عالمگیریت کی وجہ سے، تھائی لینڈ میں بین الاقوامی دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اسے اپنے کاروباری معاملات میں زیادہ شفاف ہونا چاہیئے، اور مختلف سرکاری محکمے اس سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز فوراً درست ہو جائے گی۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ عالمی معیشت سست ہوتی جا رہی ہے اور مقامی بزنس میں مسابقت کا رجحان بڑھ رہا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ بعض کیسوں میں ، زیادہ مقابلے کی وجہ سے ، کرپشن میں اضافہ ہو گیا ہے۔’’
سینٹرل بینک کے ایک سابق ڈپٹی گورنر اور تھائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائریکٹرز کے موجودہ صدر بیڈیڈ نیجاتھاورن کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ دس سال پہلے کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں کرپشن اب زیادہ بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
‘‘کرپشن ایک عالمی مسئلہ ہے۔ آپ کرپشن کے بارے میں بہت سے ملکوں میں شہ سرخیاں دیکھیں گے ۔ انفرادی ملکوں کی قومی تنظیمیں اور حکومتیں اس عالمی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تھائی لینڈ میں ایسا لگتا ہے کہ 10 برس پہلے کے مقابلےمیں یہ مسئلہ اور زیادہ سنگین ہو گیا ہے۔’’
گزشتہ عشرے کے دوران ایشیا کے بہت سے ملکوں نے شاندار اقتصادی ترقی کی ہے۔ اس کے باوجود، کرپشن کے انسداد کے بین الاقوامی معیاروں میں ان کا درجہ بہت نیچے ہے ۔
امریکہ میں قائم سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف چین میں ہی، 2001 اور 2010 کے دوران، دو اعشاریہ سات چار ٹریلین ڈالر کے غیر قانونی فنڈز ملک سے باہر چلے گئے۔
فنڈز کی یہ منتقلی مجرمانہ مالیاتی اسکیموں، کرپشن، ٹیکس کی چوری یا دوسری غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے عمل میں آئی ۔ تھائی لینڈ میں اسی عرصے کے دوران، 64 ارب ڈالر کی رقم غیر قانونی طور پر ملک سے باہر منتقل کر دی گئی ۔ بھارت میں جہاں گذشتہ سال کرپشن کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے، یہ رقم 123 ارب ڈالر تھی۔
اقوامِ متحدہ کے ‘آفس آن ڈرگس اینڈ کرائم’ (یواین او ڈی سی) کے انسدادِ کرپشن کے علاقائی مشیر شیرون میجلسی کہتے ہیں کہ عالمی معیشت میں ایشیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیشِ نظر کرپشن پر نظر رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
‘‘عام طور سے جب اتنی تیز اقتصادی ترقی ہو رہی ہوتی ہے جو ہم اس علاقے میں دیکھ رہے ہیں تو اس کے ساتھ ہی کرپشن کے چیلنچ اور مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب پیسے کا لین دین زیادہ ہوگا، بڑے بڑے کنٹریکٹ ہوں گے، زیادہ سامان کی خرید و فروخت ہوگی، تو کرپشن کے مواقع بھی بڑھ جائیں گے۔ لہٰذا بد عنوانی کی روک تھام کے زیادہ سخت نظام کی ضرورت ہوگی۔’’
2003 میں اقوامِ متحدہ نے کرپشن کے خلاف ایک کنونشن منظور کیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں برما نے گذشتہ دسمبر میں اس کنونشن کی توثیق کی۔
ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشنز یعنی آسیان کے دس رکن ممالک میں ایسا کرنے والا وہ آخری ملک تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں اور نجی شعبے کے اداروں کو بھی شامل ہونا چاہیئے۔