جنگی حیات کے تحقظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کہاہے کہ ایشیا بھر میں جنگلی شیروں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہوئی ہے اور ان کی نسل جلد ہی دنیا سے مٹ سکتی ہے۔ تنظیم نے علاقے کی حکومتوں زور دیا ہے کہ وہ جنگلی حیات کے شکار اور ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کے قوانین پر عمل درآمد کو مؤثر بنائیں۔
ڈبلیو ڈبیلو ایف نے کہا ہے کہ ایک صدی پہلے ایشیاء کے جنگلی شیروں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی ، مگر ان کےشکار اور انسانی سرگرمیوں کے باعث ایک اندازے کے مطابق اب وہ صرف لگ بھگ 3200 باقی رہ گئے ہیں، جن میں سےتقریباً نصف بھارت میں ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے جمعرات کے روز کہا کہ ان شیروں کو سب سے بڑا خطرہ بقول ان کے شکار کی وبا سے ہے۔ شیروں کو اس لیے ہلاک کیا جارہاہے تاکہ ان کے جسم کے حصے روائتی چینی دوا کے طورپر فروخت کیے جاسکیں۔
جنگلی ہرن وغیرہ کے بڑے پیمانے پر شکار سے ان شیروں کی خوراک کی فراہمی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
مائیکل بیلٹزر شیروں کے تحفظ سے متعلق ڈبلیو ڈبلیو ایف کے شعبے انچارج ہیں ، کہتے ہیں کہ انسانی تجاوزات ،مثلاً بڑے بڑے کمرشل فارمز ، کے باعث جنگلی شیروں کو اتنے چھوٹے علاقوٕں میں رہنا پڑ رہا ہے جتنے چھوٹے علاقوٕ ں میں وہ پہلے کبھی نہیں رہے تھے۔ تاریخی طور پر ان کے پاس رہنے کے لیے کل جتنا رقبہ ہوا کرتا تھااب وہ اس کے صرف سات فی صد حصے میں رہتے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ غالباً امکان یہ ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا ، اگر اس کی نسل مسلسل کم ہوتی رہی تو شاید ہم شیروں کو ایک ایسے مرحلے میں پائیں گے کہ وہ جنگلوں میں مزید زندہ نہیں رہ سکیں گے اور، شاید اگلے برس تک، جو چینی کیلنڈر کے مطابق ،شیر، کا سال ہے، وہ جنگلو ں میں اپنی نسل مزید آگے بڑھانے کے قابل نہ رہیں ۔
چینی کیلنڈر کے مطابق شیر کا سال 14 فروری سے شروع ہوتا ہے اور شیر کا اگلا سال بارہ برس میں آئے گا۔
شیروں کی آبادی میں تیزی سے کمی کو روکنے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ایشیائی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ 2022 تک شیروں کی آبادیوں کے لیے وسائل کو دوگنا کرنے کی کوشش کریں ۔
جنگلی شیر چین ، روس اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت 13 ملکوں میں پائے جاتے ہیں ۔
ان ملکوں کے وزراءجنگلی شیروں کے بہتر تحفظ پر گفتگو کے لیے اگلے ہفتے تھائی لینڈ میں اجلاس کر یں گے ۔
مسٹر بیلٹزرز نے کہا ہے کہ ملائیشیااور نیپال پہلے ہی جنگلی شیروں کی آبادیوں کی تعداد کو دوگنا کرنے کے لیے کام کرنے پر تیار ہو چکے ہیں ۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کو توقع ہے کہ اجلاس میں چین سمیت دوسرے ملکوں کے وزراء بھی ایسے ہی وعدے کریں گے ۔
چین میں روائتی ادویات کے لیے شیروں کے بہت سے فارمز ہیں اور اس کا جواز ہے کہ فارمز کی وجہ سے شیروں کے شکار کی روک تھام ہوتی ہے ۔
لیکن ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ شیروں کو ادویات کے لیے شیروں کے فارمز بنانے سے اس کی مانگ میں اضافے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا