یوں تو آپ رات کے وقت آسمان پرستاروں کو ٹوٹ کر گرتا ہوا دیکھتے ہیں، جو اپنے پیچھے ایک لمبی روشن لکیر چھوڑتے ہوئے آناـً فاناً نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔انہیں شہابیے کہتے ہیں اور یہ ایک معمول کا عمل ہے، لیکن آج جمعرات کی رات کچھ خلاف معمول ہونے جا رہا ہے جس پر فلکیات کے ماہرین کو قدرے تشویش ہے۔
انہیں فکر یہ ہے کہ اس بار ایک قدرے بڑا شہابیہ زمین کے انتہائی قریب سے گزر ے گا، یعنی محض 2200 میل کے فاصلے سے۔ تاہم انہیں یقین ہے کہ وہ زمین سے نہیں ٹکرائے گا۔
شہابیے خلا میں اڑتی ہوئی چٹانوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ہیں۔ جب وہ زمین یا کسی دوسرے سیارے کے قریب سے گزرتے ہیں تو ان کی مقناطیسی قوت شہابیے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ چونکہ شہابیے کی رفتار ہزاروں میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اس لیے سیارے کی سطح سے ٹکرانے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے۔ نقصان کا انحصار شہابیے کے سائز پر ہوتا ہے۔بڑے سائز کا شہابیہ بڑا نقصان کرتا ہے۔
ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہماری زمین کو ہوا کی ایک موٹی تہہ نے ڈھانپ رکھا ہے، یہ تہہ نہ صرف جانداروں کو سانس لینے کے لیے آگسیجن فراہم کرتی ہے بلکہ ہمیں شہابیوں کے خطرات سے بھی بچاتی ہے۔
جب بھی کوئی شہابیہ زمین کے انتہائی قریب آتا ہے تو زمین کی مقناطیسی طاقت جسے کشش ثقل کہتے ہیں، اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جس سے اس کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ شہابیہ جیسے ہی زمین کے کرہ فضائی میں داخل ہوتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے وہ گرم ہونے لگتا ہے اور ایک مرحلے پر وہ اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ اس میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ آن واحد میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
رات کے وقت جب آپ آسمان پر کسی ستارے کو ٹوٹتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس وقت زمین کی جانب تیری سے بڑھتا ہوا شہابیہ شعلوں کی لپیٹ میں ہوتا ہے اور وہ راکھ میں تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔
شہابیے کی راکھ آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہے۔ اور آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ آسمانی راکھ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے۔
اگر شہابیے کا سائز بہت بڑا ہو تو وہ ہوا کی تقریباً ایک سو میل موٹی تہہ سے گزرتے ہوئے مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ جاتا ہے اور زمین سے ٹکڑا سکتا ہے۔ جس سے اس کے سائز کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی آ سکتی ہے۔ کروڑوں سال پہلے ایک ایسا واقعہ ہی واقعہ پیش آنے سے بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ آن واحد میں سب کچھ جل کر بخارات میں تبدیل ہو گیا تھا۔
سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ زمین سے ٹکرانے والے اس سب سے بڑے شہابیے کا سائز تقریباً 160 فٹ تھا۔ وہ خام لوہے کا چٹانی ٹکرا تھا جس کا وزن لگ بھگ تین لاکھ 30 ہزار ٹن تھا۔ وہ زمین سے 2700 میل فی گھنٹہ کی رفتار سےٹکرایا تھا جس سے ہیروشما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ اس کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والے گڑھے کے نشانات امریکہ کے صحرائی علاقے ایری زونا میں آج بھی موجود ہیں۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق زمین کے وجود میں آنے کے بعد سے تقریباً 60 بڑے شہابیے زمین سے ٹکرا کر تباہی پھیلا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لگ بھگ ہر دس کروڑ سال کے بعد کسی بڑے شہابیے کا زمین سے ٹکرانے کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ کروڑوں سال پہلے ایک ایسے ہی حادثے نے دنیا سے ڈینوساروں کی نسل کا ہی خاتمہ کر دیا تھا۔
ناسا کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ جمعرات کو زمین کے انتہائی قریب سے گزرنے والے شہابیے کے گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ناسا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب یہ شہابیہ زمین کے انتہائی قریب یعنی 2200 میل کے فاصلے پر ہو گا تو اس وقت وہ براعظم جنوبی امریکہ کے جنوبی حصے پر سے گزر رہا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت وہاں شام کے 7 بج کر 27 منٹ ہو رہے ہوں گے۔
زمین کے انتہائی قریب سے گزرنے والے اس شہبابیے کو بی یو 2023 کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً 11 فٹ اور لمبائی 28 فٹ کے لگ بھگ ہے۔
ناسا کے ماہرین فلکیات نے بتایا ہے کہ زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے شہابیے کا راستہ تبدیل ہو جائے گا۔ اس وقت وہ سورج کے گرد اپنا چکر 359 دنوں میں مکمل کرتا ہے، لیکن مدار تبدیل ہونے سے آئندہ وہ بیضوی انداز میں اپنا یہ چکر 425 دنوں میں پورا کرے گا۔