اٹلی کے ساحل کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے پاکستانی شہریوں سمیت 62 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی افراد لاپتا ہیں جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق کشتی میں لگ بھگ 170 افراد سوار تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اتوار کی صبح جب کشتی ساحل کے قریب پہنچی تو چٹان سے ٹکرانے کے باعث ٹوٹ گئی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ اُنہیں 'دو درجن سے زائد پاکستانیوں کے ڈوبنے کی اطلاع پر تشویش ہے۔
اقوامِ متحدہ کی مہاجرین سے متعلق ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 100 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے جب کہ 80 افراد کو بچا لیا گیا ہے جن میں سے بعض تیر کر ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ کشتی میں افغانستان، پاکستان اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن بھی سوار تھے۔
اٹلی کے سرکاری میڈیا کے مطابق حکام نے ایک شخص سے پوچھ گچھ بھی کی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ان افراد کو یورپ پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ریسکیو اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ٹوئٹ کی کہ اُنہیں اس واقعے میں دو درجن سے زائد پاکستانیوں کے ڈوبنے کی افسوس ناک اطلاع ملی ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ اُنہوں نے وزارتِ خارجہ سے کہا ہے کہ وہ حقائق سامنے لائے اور قوم کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا جائے۔
ڈاکٹرز کی ایک تنظیم 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' کے مطابق وہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں ایک 16 سالہ افغان بچہ بھی شامل ہے۔ اس کی 28 سالہ بہن بھی اس واقعے میں جان کی بازی ہار گئی ہے۔
زندہ بچ جانے والے 12 سالہ افغان بچہ بھی شامل ہے جس نے اپنے والدین سمیت چار بہن، بھائیوں کو کھو دیا ہے۔
خیال رہے کہ ترکیہ کے راستے یورپ جانے کی کوشش میں کشتی ڈوبنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی یورپ جانے کے خواہش مند یہ خطرناک روٹ اختیار کرتے ہیں۔
اٹلی وزارتِ داخلہ کے مطابق 2022 میں ایک لاکھ پانچ ہزار تارکینِ وطن سمندر کے راستے ملک میں داخل ہوئے جو 2021 کے مقابلے میں 38 ہزار زیادہ ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔