معروف ماہر معاشیات عاطف میاں کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک ایسی جگہ ہیں جہاں فی الحال سرمایہ کار جانے کے لیے تیار نہیں بلکہ ان کے مطابق اگر گوگل ٹرینڈز پاکستان دیکھیں تو سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے الفاظ میں لفظ ویزا بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں یہ سرچ نہ بھارت میں نظر آتی ہے نہ بنگلہ دیش میں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں رہنے والی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر نکلنے کی خواہشمند ہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے جولئیس ربینووٹز سینٹر فار پبلک پالیسی کے زیر اہتمام ’’ پاکستان: کیا آگے بڑھنے کی کوئی راہ ہے؟‘‘ کے موضوع پر ماہر معاشیات اور پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر، عاطف میاں اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان، رضا باقر نے پاکستان کی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ملک کی موجودہ مشکلات اور مستقبل کے لیے ممکنہ لائحہ عمل پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
عاطف میاں کے مطابق سیاست دان ہوں، بیوروکریٹس یا پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ، ان کے برے سیاسی، سیکیورٹی اور معاشی فیصلوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے جہاں آج حکومت عوام میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔
کیا یہاں سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہے؟ اس سوال پر عاطف میاں کا کہنا تھا کہ عوام اور بیرونی دنیا پر اپنا کھویا ہوا اعتبار واپس حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے تو بامقصد اسٹرکچرل سطح پرتبدیلیاں متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ اندرون اور بیرون ملک یہ باور کرایا جاسکے کہ تبدیلی کا اغاز ہو چکا ہے اور حکمران اس میں مخلص اور سنجیدہ ہیں۔
آگے بڑھنے کا کیا راستہ ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر رضا باقر کا کہنا تھا کہ وہ اس پر تو رائے نہیں دے سکتے کہ ملکی سطح پر تبدیلیاں کیسے لائی جائیں لیکن ان کے بقول انہوں نے اور ان کی ٹیم نے اپنے دور میں اسٹیٹ بینک میں مثبت تبدیلیاں ضرور متعارف کرائیں مگر اسٹیٹ بینک ملک کے معاشی دھارے کا محض ایک حصہ ہے۔ ان کے نزدیک ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا سسٹم ہو جہاں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ساتھ تکنیکی معاشی مسائل پر مشاورت کے لیے ٹیکنوکریٹس اور ان مسائل کا ادراک رکھنے والے اور ان کے حل کی صلاحیتوں کے حامل سول سرونٹس کی ٹیم ہو جو بجٹ، ٹیکسیشن میں بہتریوں سمیت معاشی ترقی کے لئے راہ ہموار کر سکیں۔
پاکستان میں اپنے کام کرنے کے تجربے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کئی وزرائے خزانہ اور ان سے بھی زیادہ خزانہ سیکرٹریوں کے ساتھ کام کیا اور وہ ان کے کام کی قدر کرتے ہیں مگر ان کے نزدیک ان اداروں میں مختلف سطحوں پر ایسے قابل افراد کی ضرورت ہے جو بہتر معاشی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔
عاطف میاں نے حکمرانوں کے طرز حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہر نئی آنے والی حکومت مرتضیٰ سید اوررضا باقر جیسے قابل لوگوں کو جانے دیتی ہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک میرٹ کی کیا قدر ہے۔ میاں کے مطابق کسی بھی اسٹارٹ اپ کی ابتدا میں ایک اچھی ٹیم تیار کی جاتی ہے جب کہ یہاں قابل لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ان غیر سنجیدہ سیاسی رویوں اورر پالیسیز کے ساتھ ملک کو کیسے آگے لے جایا جا سکتا ہے؟ عاطف میاں کا کہنا تھا کہ ہر نئی حکومت کے ساتھ نئے لوگ آتے ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں مگر بار بار اہم عہدوں پر کام کرنے والے غیر سیاسی پیشہ ور ماہرین کو ہٹا کر ملک کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔
رضا باقر نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک جیسے آزاد اداروں کو چلانے والے مخلص ہیں۔ ان کے فیصلوں کو سیاسی مداخلت سے مبرا ہونا چاہئے۔ ان اداروں کے سربراہان کو حکمران خود چنتے ہیں تو ان کے فیصلوں پر اعتبار بھی کیا جائے۔ اس کو سمجھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جیسے کرنٹ اکاونٹ خسارے اورمالیاتی خسارے کا گہرا تعلق ہے۔ جب بھی مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے اور یہ مالیاتی خسارہ سیاسی تبدیلیوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔
رضا باقر نے سوال کیا کہ کیا پاکستان میں ایک ایسا سسٹم لایا جاسکتا ہے، جہاں مالیاتی پالیسی پر ایک ایسی کاؤنسل یا بورڈ قائم ہوجس میں موجودہ وزیر خزانہ تو ہوں مگر جو اس بات سے قطع نظر کہ حکومت میں کون ہے اپنا کام آزادانہ کرتا رہے۔ ان کے نزدیک اس کاؤنسل کے اہداف تو حکومت متعین کرے مگر ان اہداف تک پہنچنے کی آزادی اس مالیاتی کاؤنسل یا بورڈ کو حاصل ہو۔ ان کا کہنا تھا لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں بھی یہی سسٹم متعارف کرایا گیا اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا پاکستان کے لیے بھی یہ ماڈل سودمند ہو سکتا ہے
عاطف میاں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل معاشی ترقی میں ہے مگر سرمایہ کاری کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور حکومت کے پاس ترقی کے لیے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے فنڈنگ نہیں ہے۔ رضا باقر نے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ لوگ بینکوں میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جہاں منافع کئی گنا زیادہ ہے اور ٹیکسیشن کم ہے۔ یہاں حکومت کے لیے موقع ہے کہ وہ ایسی ٹیکسیشن متعارف کرائے کہ سرمایہ کاروں کے لیے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری یا بینکوں میں سرمایہ کاری کا فرق ختم ہوجائے۔
رضا باقر کا مزید کہنا تھا کہ سرمایہ کاری کے لیے یہاں پر بینکوں کے کردار دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس متعارف کرائے گئے جن کے ذریعے چھ ارب ڈالرزملک میں آئے۔ ان کاکہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں یہ سمندر پار پاکستانیوں کے نجی کاموں کے لیے استعمال ہونے تھے اور دوسرے مرحلے میں انہیں سرمایہ کاری میں استعمال کیا جانا تھا مگر حکومت کی تبدیلی کے بعد اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ یہ موجودہ حکومت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتا۔
معاشی ترقی کے لیے برآمدات کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے رضا باقرکا کہنا تھا ایکسپورٹس بڑھانے کے لیے حکومت کو محض چند سیکٹرز نہیں بلکہ ہر طرح کی ایکسپورٹس پر ترغیبات دینی چاہئیں، حکومت کا فوکس ایکسپورٹس کی مد میں آنے والے ڈالرز ہونے چاہئیں نہ کہ کن سیکٹرز کو ترغیبات دی جائیں۔
گفتگو کے اختتام پر عاطف میاں کا کہنا تھا پاکستان کی ترقی کے لیے سماجی تبدیلی بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں تعلیمی قابلیت کے باوجود خواتین با اختیار عہدوں پر نہیں، جہاں سماجی اور مذھبی عدم رواداری ہے وہ معاشرہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ بہت بنیادی باتیں ہیں؟ ان کے مطابق سماجی تبدیلی کے اس عمل کو بھی حکمرانوں کو ہی متعارف کروانا ہوگا۔ انہوں نے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے بھی یہ جان لیا کہ کہ آگے بڑھنے کے لیے رواداری اور برداشت بھی بڑھانی ہوگی۔