میانمار کی جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سو چی نے بدھ کو ملک کے صدر تھائن شین سے انتخابات کے بعد اقتدار کی پر امن منتقلی پر بات چیت کی۔ گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں 50 سال میں پہلی مرتبہ فوجی حکومت سے منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا جائے گا۔
سبکدوش ہونے والے صدر تھائن شین اور آنگ سان سو چی کے درمیان مختصر ملاقات نوبل انعام یافتہ سو چی کی طرف سے ’’قومی مفاہمت‘‘ کی کوششوں کا حصہ تھی۔
انتخابات میں سو چی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے کچھ دیر بعد ہی انہوں نے ان کوششوں کا اعلان کیا تھا۔ بدھ کی دوپہر وہ فوج کے سربراہ من آنگ ہلینگ سے بھی ملیں گی۔
میانمار کے موجودہ آئین کے مطابق پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں فوج کو 25 فیصد نشستوں پر اپنے نمائندے نامزد کرنے اور اہم سرکاری عہدیدار تعینات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ 1990 کی طرح فوج اب بھی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی۔ مگر صدر تھائن شین اور فوج دونوں نے نومبر کے انتخابی نتائج کا احترام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
1990 کے انتخابات میں بھی سو چی کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی مگر فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور سو چی کو ان کے گھر میں اگلے 20 سال تک نظر بند رکھا۔
میانمار کے آئین کے مطابق سو چی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کے مرحوم شوہر اور دو بیٹے برطانوی شہری ہیں۔ مگر انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا ہے صدر کوئی بھی ہو مگر اہم فیصلے وہ خود کریں گی۔