گذشتہ سال کی پولنگ سے اندازہ ہوا تھا کہ آسٹریلیا کے 25 فیصد لوگوں کے اسانج کے حق میں ووٹ دینے کا امکان ہے اور نوجوانوں اور گرینز ووٹرز میں ان کی حمایت خاص طور سے زیادہ ہے۔
سڈنی —
وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج آسٹریلیا میں انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ وہ کوئنزلینڈ میں پیدا ہوئے تھے اور آج کل ایک مفرور ملزم کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس سال کے آخر میں ہونے والے عام انتخاب میں، سینیٹ یعنی پارلیمینٹ کے ایوانِ بالا کی ایک نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔
خفیہ سرکاری اور تجارتی دستاویزات شائع کرنے پر وکی لیکس نے ساری دنیا میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔اب وکی لیکس پارٹی آسٹریلیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں، وکٹوریا اور نیو ساؤتھ ویلز، اور مغربی آسٹریلیا میں امیدوار کھڑے کرے گی ۔ ان امیدواروں کے ناموں کا اعلان اگلے مہینے کیا جائے گا ۔ یہ پارٹی وفاقی سینیٹ کی نشستوں کے لیے انتخاب لڑے گی جو آسٹریلیا کی پارلیمینٹ کا ایوانِ بالا ہے۔
وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج وکٹوریا میں ایک نشست کے لیے انتخاب لڑیں گے ۔ اس نئی پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے منشور میں آزادیٔ تقریر، انسانی حقوق، آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے لیے حقِ خود اختیاری اور حکومتوں اور کارپوریشنوں کے لیے سچائی اور شفافیت سرِ فہرست ہیں۔
گذشتہ سال کی پولنگ سے اندازہ ہوا تھا کہ آسٹریلیا کے 25 فیصد لوگوں کے اسانج کے حق میں ووٹ دینے کا امکان ہے اور نوجوانوں اور گرینز ووٹرز میں ان کی حمایت خاص طور سے زیادہ ہے۔
انڈریو فولر وکی لیکس کے بانی اسانج کی سوانح حیات کے مصنف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسانج کو اب عوامی مقرر کی حیثیت سے کافی مہارت حاصل ہو گئی ہے اور وہ حکومتوں اور سیاستدانوں کو خاصی پریشانی میں ڈال سکتے ہیں۔
’’وہ اپنی فعالیت اور سرگرم اندازِ فکر کی وجہ سے آسٹریلیا کی گرین لیفٹ تحریک کے لوگوں میں بہت مقبول ہو جائیں گے ۔ صرف یہی نہیں، اپنی سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ دوسرے سیاسی خیالات رکھنے والوں کے لیے بھی پرُ کشش ہو جائیں گے، ایسے لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ، ہم ایسی ریاست کے قیام کی جانب بڑھ رہے ہیں جو، Assange کے خیال میں، ہر وقت اپنے شہریوں کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔‘‘
دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سیاسی عمل میں شرکت کی کوشش کے ذریعے، وکی لیکس ایک اہم حد کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، بجائے اس کے کہ وہ ایک نیم صحافیانہ ادارے کی حیثیت سے خود کو قائم رکھے ۔
وکی لیکس نے جو ایک غیر تجارتی گروپ ہے، عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں خفیہ امریکی خط و کتابت، فوجی دستاویزات اور وڈیوز کی اشاعت کا دفاع یہ کہہ کر کیا ہے کہ اس کا مشن ہی یہ ہے کہ اہم خبروں اور معلومات کو عام لوگوں کے علم میں لایا جائے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ خفیہ مواد کی اشاعت سے اطلاعات فراہم کرنے والوں کے لیے خطرات پیدا ہوئے ہیں اور قانون شکنی ہوئی ہے۔ امریکی پراسیکوٹرز نے کہا ہے کہ وکی لیکس کے بانی اسانج پر سرکاری املاک کی چوری کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سڈنی کی پروفیسر اریانڈی ورومن کہتی ہیں کہ اس نئی پارٹی کے لیے آسٹریلیا کے باقاعدہ سیاسی نظام میں کام کرنا مشکل ہو گا
’’پارلیمانی نظام اور پارٹی کے سیاسی نظام سے باہر رہ کر اس پر تنقید کرنا آسان ہے۔ ایک بار جب آپ پارلیمینٹ میں داخل ہو جاتے ہیں، تو پھر آپ کو دوسری پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوتے ہیں۔ ایسی پارٹی قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے جس کا دائرہ ٔ کار ایک مسئلے تک محدود ہو۔ لہٰذا ، میرے خیال میں اسانج کے لیے سیاست میں قدم رکھنا مایوس کن تجربہ ہو گا۔‘‘
وکی لیکس کے بانی گذشتہ جون سے لند ن میں ایکیوڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں تا کہ وہ جنسی حملے کے الزامات میں سویڈن بھیجے جانے سے بچ سکیں۔ انھوں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی وجوہ کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔
انتخابی تجزیہ کار انتونی گرین کہتے ہیں کہ اگر اسانج منتخب ہو جاتے ہیں تو بھی، انہیں آسٹریلیا واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’جس لمحے وہ ایکوڈور کے سفارت خانے سے باہر قدم رکھیں گے، برطانیہ کی حکومت انہیں گرفتار کر لے گی اور انہیں پوچھ گچھ کے لیے سویڈن بھیج دے گی۔ اگر وہ منتخب ہوگئے، تو وہ کبھی حلف نہیں اٹھا سکیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی نشست بعد میں خالی قرار دے دی جائے گی، اور کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا۔‘‘
وکی لیکس نے کہا ہے کہ اس نئی پارٹی نے ارکان کی تعداد پہلے ہی 500 سو سے زیادہ ہو گئی ہے جو آسٹریلیا کے الیکشن کمیشن کے ضابطوں کے تحت رجسٹریشن کے لیے ضروری ہے۔ رجسٹریشن کی ضابطے کی کارروائی اس مہینے کے آخر تک مکمل ہو جائے گی ۔ آسٹریلیا میں انتخابات ستمبر کے وسط میں ہوں گے۔
خفیہ سرکاری اور تجارتی دستاویزات شائع کرنے پر وکی لیکس نے ساری دنیا میں ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔اب وکی لیکس پارٹی آسٹریلیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں، وکٹوریا اور نیو ساؤتھ ویلز، اور مغربی آسٹریلیا میں امیدوار کھڑے کرے گی ۔ ان امیدواروں کے ناموں کا اعلان اگلے مہینے کیا جائے گا ۔ یہ پارٹی وفاقی سینیٹ کی نشستوں کے لیے انتخاب لڑے گی جو آسٹریلیا کی پارلیمینٹ کا ایوانِ بالا ہے۔
وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج وکٹوریا میں ایک نشست کے لیے انتخاب لڑیں گے ۔ اس نئی پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے منشور میں آزادیٔ تقریر، انسانی حقوق، آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے لیے حقِ خود اختیاری اور حکومتوں اور کارپوریشنوں کے لیے سچائی اور شفافیت سرِ فہرست ہیں۔
گذشتہ سال کی پولنگ سے اندازہ ہوا تھا کہ آسٹریلیا کے 25 فیصد لوگوں کے اسانج کے حق میں ووٹ دینے کا امکان ہے اور نوجوانوں اور گرینز ووٹرز میں ان کی حمایت خاص طور سے زیادہ ہے۔
انڈریو فولر وکی لیکس کے بانی اسانج کی سوانح حیات کے مصنف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسانج کو اب عوامی مقرر کی حیثیت سے کافی مہارت حاصل ہو گئی ہے اور وہ حکومتوں اور سیاستدانوں کو خاصی پریشانی میں ڈال سکتے ہیں۔
’’وہ اپنی فعالیت اور سرگرم اندازِ فکر کی وجہ سے آسٹریلیا کی گرین لیفٹ تحریک کے لوگوں میں بہت مقبول ہو جائیں گے ۔ صرف یہی نہیں، اپنی سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ دوسرے سیاسی خیالات رکھنے والوں کے لیے بھی پرُ کشش ہو جائیں گے، ایسے لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ، ہم ایسی ریاست کے قیام کی جانب بڑھ رہے ہیں جو، Assange کے خیال میں، ہر وقت اپنے شہریوں کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔‘‘
دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سیاسی عمل میں شرکت کی کوشش کے ذریعے، وکی لیکس ایک اہم حد کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، بجائے اس کے کہ وہ ایک نیم صحافیانہ ادارے کی حیثیت سے خود کو قائم رکھے ۔
وکی لیکس نے جو ایک غیر تجارتی گروپ ہے، عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں خفیہ امریکی خط و کتابت، فوجی دستاویزات اور وڈیوز کی اشاعت کا دفاع یہ کہہ کر کیا ہے کہ اس کا مشن ہی یہ ہے کہ اہم خبروں اور معلومات کو عام لوگوں کے علم میں لایا جائے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ خفیہ مواد کی اشاعت سے اطلاعات فراہم کرنے والوں کے لیے خطرات پیدا ہوئے ہیں اور قانون شکنی ہوئی ہے۔ امریکی پراسیکوٹرز نے کہا ہے کہ وکی لیکس کے بانی اسانج پر سرکاری املاک کی چوری کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سڈنی کی پروفیسر اریانڈی ورومن کہتی ہیں کہ اس نئی پارٹی کے لیے آسٹریلیا کے باقاعدہ سیاسی نظام میں کام کرنا مشکل ہو گا
’’پارلیمانی نظام اور پارٹی کے سیاسی نظام سے باہر رہ کر اس پر تنقید کرنا آسان ہے۔ ایک بار جب آپ پارلیمینٹ میں داخل ہو جاتے ہیں، تو پھر آپ کو دوسری پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوتے ہیں۔ ایسی پارٹی قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے جس کا دائرہ ٔ کار ایک مسئلے تک محدود ہو۔ لہٰذا ، میرے خیال میں اسانج کے لیے سیاست میں قدم رکھنا مایوس کن تجربہ ہو گا۔‘‘
وکی لیکس کے بانی گذشتہ جون سے لند ن میں ایکیوڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں تا کہ وہ جنسی حملے کے الزامات میں سویڈن بھیجے جانے سے بچ سکیں۔ انھوں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ سب کچھ سیاسی وجوہ کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔
انتخابی تجزیہ کار انتونی گرین کہتے ہیں کہ اگر اسانج منتخب ہو جاتے ہیں تو بھی، انہیں آسٹریلیا واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’جس لمحے وہ ایکوڈور کے سفارت خانے سے باہر قدم رکھیں گے، برطانیہ کی حکومت انہیں گرفتار کر لے گی اور انہیں پوچھ گچھ کے لیے سویڈن بھیج دے گی۔ اگر وہ منتخب ہوگئے، تو وہ کبھی حلف نہیں اٹھا سکیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی نشست بعد میں خالی قرار دے دی جائے گی، اور کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا۔‘‘
وکی لیکس نے کہا ہے کہ اس نئی پارٹی نے ارکان کی تعداد پہلے ہی 500 سو سے زیادہ ہو گئی ہے جو آسٹریلیا کے الیکشن کمیشن کے ضابطوں کے تحت رجسٹریشن کے لیے ضروری ہے۔ رجسٹریشن کی ضابطے کی کارروائی اس مہینے کے آخر تک مکمل ہو جائے گی ۔ آسٹریلیا میں انتخابات ستمبر کے وسط میں ہوں گے۔