آسٹریلیا میں گزشتہ سو برسوں کی نسبت 2020 میں آبادی کا تناسب کم ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔
آسٹریلیا کے ادارہ برائے شماریات کے ڈائریکٹر فل براؤننگ کے مطابق "آخری بار دسمبر 1916 میں پہلی جنگِ عظیم کے دوران آسٹریلیا کی آبادی میں کمی دیکھی گی تھی۔"
ڈھائی کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل آبادی والے ملک آسٹریلیا میں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد آبادی میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی پابندیوں اور سرحدوں کی بندش کی وجہ سے آسٹریلیا آنے والوں کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
دہائیوں سے آسٹریلیا کی معیشت کان کنی اور زراعت کے شعبوں کے علاوہ یورپ اور ایشیائی ممالک سے آنے والے تارکینِ وطن کی نقل مکانی سے وابستہ رہی ہے۔
SEE ALSO: کرونا وائرس: دنیا کے ایک ارب افراد گھروں تک محدودگزشتہ برس ستمبر تک بیرون ملک سے ہجرت کر کے آنے والے تارکینِ وطن کی تعداد 85100 رہی جو عام طور پر ہر ہفتے آسٹریلیا آنے والے سیاحوں کی تعداد سے بھی کہیں کم ہے۔
ادارہ برائے شماریات کے مطابق ستمبر 2020 تک ملکی آبادی میں ایک فی صد سے بھی کم اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جب کہ ادارے کے ڈائریکٹر فل براؤننگ کہتے ہیں بیرونِ ملک سے آسٹریلیا آ کر قیام کرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران کمی دیکھی گئی ہے۔
آسٹریلیا دنیا کا سب سے بڑا گنجان آباد جزیرہ ہے جہاں عالمی وبا کے آغاز کے ساتھ ہی پوری دنیا سے آنے والوں کے لیے سرحدیں بند کر دی گئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
آسٹریلیا کی حکومت نے جارحانہ کرونا ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور لاک ڈاؤن کے اقدامات کی وجہ سے کرونا کو محدود کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور معیشت کو محدود پابندیوں کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
آسٹریلیا کی معیشت 2020 میں ایک اعشاریہ ایک فی صد سکڑ گئی تھی۔ لیکن ادارہ برائے شماریات نے بتایا ہے کہ فروری میں بے روزگاری کی شرح کم ہو کر پانچ اعشاریہ آٹھ فی صد رہ گئی ہے جس میں مزید بہتری کی توقع ہے۔
ملازمت رکھنے والے افراد کی تعداد اب تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے جس کے بعد آسٹریلیا میں روزگار کی تلاش کے لیے آ کر بسنے والوں کی شرح میں اضافے کی توقع ہے۔
وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن کا بھی کہنا ہے کہ جب نئے مالی سال کا آغاز ہو گا تو مزید ملازمتیں دستیاب ہوں گی۔