|
آسٹریلیا اگلے سال سے غیرملکی طلبا کی تعداد میں کمی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ حکومت نے منگل کو بتایا کہ امیگریشن کے معاملے پر سیاسی تناؤ کی وجہ سے اربوں ڈالر کی اس صنعت کو محدود کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے لاکھوں اسٹوڈنٹس اس ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
وزیر تعلیم جیسن کلیئر نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ یونیورسٹیوں، اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے اداروں میں سال 2025 میں نئے بین الاقوامی طلبہ کی تعداد دو لاکھ 70 ہزار تک محدود کر دی گئی ہے۔
کلیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال کچھ یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد آنے والے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
تاہم اس مقصد کے لیے حکومت کو قانون سازی کرنی پڑے گی۔
سرکاری اعداد وشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں میں بین الاقوامی طلبہ کی آمد سے ملکی معیشت میں 42 ارب آسٹریلوی ڈالر شامل ہوئے جو 28 ارب امریکی ڈالرz کے مساوی رقم ہے۔
آسٹریلوی حکام نے 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پانچ لاکھ 77 ہزار بین الاقوامی طلبہ کو ویزے جاری کیے تھے۔
آسٹریلیا کے ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کے مطابق 2022 میں 15875 پاکستانی طلبہ وہاں زیر تعلیم تھے۔ جب کہ 2023 میں بھارتی اسٹوڈنٹس کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ تھی۔
وزیر تعلیم جیسن کلیئر نے بتایا کہ تعلیمی پالیسی میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ اگلے سال اپنی تعلیم شروع کرنے والے بین الاقوامی طلبہ کی تعداد اتنی ہی ہو گی جتنی کہ عالمی وبا کوویڈ۔19 کے پھیلاؤ سے پہلے ہوتی تھی۔
حکومت نے بتایا ہے کہ 2025 میں یونیورسٹیوں میں ایک لاکھ 45 ہزار، اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں 30 ہزار اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز میں 95 ہزار غیرملکی طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔
نئی پالیسی کا مقصد طلبا کو ترجیح دینے کی حالیہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہے جس کا فائدہ اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیوں کو ہوا ہے جب کہ دوسرے شعبوں کے لیے ویزوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں کے چیئرمین ڈیوڈ لائیڈ نے اس پالیسی پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ہم تارکین وطن کی تعداد کو کنٹرول کرنے کے حکومت کے حق کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کا اطلاق کسی ایک شعبے کی قیمت پر نہیں کیا جانا چاہیے، خاص طور پر معاشی لحاظ سے اہم شعبے پر جیسا کہ تعلیم ہے۔
لائیڈ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طلبا کان کنی کے بعد آسٹریلیا کی دوسری سب سے بڑی صنعت ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ سال آسٹریلیا کی معاشی ترقی میں نصف سے زیادہ سے زیادہ کا حصہ ڈالا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی ملکوں سے آنے والے طلبہ سے حاصل ہونے والا ہر ڈالر آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں پر لگایا جاتا ہے۔ اگر بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں کمی آئے گی تو ایک ایسے وقت میں یونیورسٹیوں کی ضرورت اور فراہمی کے درمیان فرق بڑھ جائے گا جب کہ یونیورسٹیوں کو زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم انتھنی البانی اس ماہ یہ کہہ چکے ہیں کہ تعلیم کا شعبہ آسڑیلیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کو غیرملکی طلبا پر ضرورت سے زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے جس کی ایک وجہ امیگریشن سے منسلک معاملات ہیں۔
منگل کو ’دی گارڈین‘ میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق 69 فی صد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ ملک میں مکانوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب امیگریشن ہے۔
آسڑیلیا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ملک میں تارکین وطن کی آمد میں 26 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا اور یہ تعداد 547300 تک پہنچ گئی۔
وزیر تعلیم نے بتایا کہ حکومت بین الاقوامی تعلیم کی صنعت کو استحصال کرنے والوں سے بچانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے حال ہی میں 150 سے زیادہ گھوسٹ کالجوں کو بند کیا ہے۔جو لوگوں کو تعلیم دینے کی بجائے آسٹریلیا میں ملازمت کے لیے چور دروازہ مہیا کر رہے تھے۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)