آسٹریلیا: جھوٹے الزام میں 19 سال قید کاٹنے والا شہری ہرجانے کا مقدمہ جیت گیا

فائل فوٹو

آسٹریلیا کی ایک عدالت نے ایک پولیس افسر کے قتل کے مقدمے میں 19 برس قید کاٹنے والے شہری کی سزا کو غلط قرار دیتے ہوئے حکومت کو اسے 70 لاکھ ڈالرز ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

ڈیوڈ ایسٹ مین کو آسٹریلیا کی ایک عدالت نے 1995 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ایسٹ مین سابق سرکاری ملازم ہیں جن پر الزام تھا کہ انہوں نے 1989 میں پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر کولن ونچیسٹر کو قتل کیا تھا۔

ڈیوڈ ایسٹ مین نے عمر قید کی سزا کے خلاف 1999 سے 2008 کے دوران اعلیٰ عدالتوں میں پانچ اپیلیں دائر کی تھیں لیکن انہیں رہائی نہیں مل سکی۔ البتہ 2014 میں ان کی سزا کے خلاف اپیل منظور کر لی گئی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایسٹ مین کے خلاف شواہد ناکافی ہیں جس کی بنا پر انہیں مجرم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ عدالت نے 2014 میں ان کی سزا منسوخ کر دی تھی جب کہ گزشتہ برس انہیں اس مقدمے سے بھی بری کر دیا گیا تھا۔

ایسٹ مین نے اپنی رہائی کے بعد 19 برس قید کے بدلے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں انسانی حقوق کے مقامی قوانین کے تحت ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالرز ہرجانہ ادا کیا جائے۔ تاہم حکومت نے انہیں صرف 30 لاکھ 80 ہزار ڈالرز کی پیش کش کی تھی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔

آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا اور اس سے متصل وفاقی علاقوں کی سپریم کورٹ نے پیر کو اس مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ ایسٹ مین کو 70 لاکھ ڈالرز کی رقم بطور ہرجانہ ادا کی جائے جب کہ انہیں مقدمے کے دوران ہونے والے تمام اخراجات بھی ادا کیے جائیں۔

ایسٹ مین کی عمر اب 74 برس ہے۔ انہوں نے دورانِ سماعت جیل میں گزرے وقت کے بارے میں عدالت کو بتایا تھا کہ جیل میں ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں تقریباً 90 بار مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا۔

دوسری جانب ایسٹ مین کی بریت کے بعد ونچیسٹر کے قتل کا مقدمہ دوبارہ معمہ بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایسٹ مین آسٹریلیا کی تاریخ میں اب تک قتل ہونے والے سینیئر ترین پولیس افسر ہیں جن کے اصل قاتلوں کی نشان دہی دو دہائیاں گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکی ہے۔