ویب ڈیسک۔۔۔ آسٹریلیا کا محکمہ دفاع اپنی عمارتوں سے نگرانی کےلیے نصب ان کیمروں کو ہٹا دے گا جو چینی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک کمپنیوں نے تیار کیے ہیں ۔ آسٹریلوی حکومت نے یہ فیصلہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے اسی طرح کے اقدامات کے بعد جمعرات کو کیا ہے ۔
آسٹریلوی اخبار نے جمعرات کو اطلاع دی کہ چینی کمپنیوں ہیک ویژن اور داہوا کے تیار کردہ کم از کم 913 کیمرے، انٹرکام، الیکٹرانک انٹری سسٹم اور ویڈیو ریکارڈرز آسٹریلوی حکومت اور ایجنسی کے دفاتر میں نصب ہیں۔ ان دفاتر میں دفاع ، خارجہ اور تجارت کے محکمے شامل ہیں۔ہیک ویژن اور داہوا جزوی طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اقتدار حکومت کی ملکیت ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیر دفاع رچرڈ مارلس نے کہا کہ ان کا محکمہ نگرانی کے لیے استعمال ہونے والی تمام ٹیکنالوجی کا جائزہ لے رہا ہے۔مارلس نے آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو بتایا کہ ’’جہاں یہ مخصوص کیمرے ملیں گے، انہیں ہٹا دیا جائے گا۔یہ ایک مسئلہ ہے اور ہم اس سے نمٹنے جا رہے ہیں۔‘‘
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے آسٹریلیا کے اس فیصلے کے بارے میں سوال پر تنقید کی اور اسے ’’غلط طرز عمل قرار دیا جس سے قومی سلامتی کے تصور کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے اور چینی اداروں کو دبانے اور ان کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کے لیے ریاستی طاقت کا غلط استعمال بھی ہے‘‘۔
ماؤ نے آسٹریلیا کا نام لیے بغیرکہا کہ چینی حکومت نے ’’ہمیشہ چینی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور تعاون کرتے ہوئے مارکیٹ کے اصولوں ، بین الاقوامی قوانین اور مقامی قوانین کی تعمیل کریں۔‘‘
انہوں نے روزانہ کی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ آسٹریلیا چینی کاروباری اداروں کے معمول کے کام کے لیے ایک منصفانہ اور غیر امتیازی ماحول فراہم کرے گا اور مزید ایسےاقدام کرے گا جو دونوں فریقوں کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون کے لیے سازگار ہوں۔‘‘
امریکی حکومت نے نومبر میں کہا تھا کہ وہ ملک کے مواصلاتی نیٹ ورک کے تحفظ کی کوشش میں ہیک ویژن اور داہواسمیت کئی معروف چینی برانڈ کے تیار کردہ ٹیلی کمیونیکیشن اور نگرانی کے ویڈیو آلات پر پابندی لگا رہی ہے۔
SEE ALSO: امریکی بحریہ نے چینی جاسوس غبارے کی پہلی تصاویر جاری کردیںبرطانوی سرکاری عمارتوں میں ہیک ویژن کے بنائے گئے حفاظتی کیمروں پر نومبر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ آسٹریلیا میں ہونے والے ایک آڈٹ میں پتہ چلا کہ محکمہ زراعت ، وزارت عظمی اور کابینہ کے علاوہ تقریباً ہر محکمے میں ہیک ویژن اور داہواکے تیار کیے گئے کیمرے اور حفاظتی آلات پائے گئے۔
اے بی سی نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلین وار میموریل اور نیشنل ڈس ابیلٹی انشورنس ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ اپنی سائٹس پر نصب چینی کیمرے ہٹا دیں گے۔
اپوزیشن کے سائبر سیکیورٹی کےلیے ترجمان جیمز پیٹرسن نے کہا کہ انہوں نے ہر وفاقی ایجنسی سے چھ ماہ کے دوران سوالات پوچھ کر آڈٹ کے لیے کہا تھا جب کہ محکمہ داخلہ یہ بتانے سے قاصر تھا کہ سرکاری عمارتوں میں کتنے کیمرے، ایکسیس کنٹرول سسٹم اور انٹرکام نصب ہیں۔
پیٹرسن نے کہا کہ ’’ہمیں فوری طور پر حکومت کی طرف سے ایک منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں سے ہر ایک ڈیوائس کو آسٹریلوی سرکاری محکموں اور ایجنسیوں سے ہٹا دیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دونوں کمپنیاں چین کے قومی انٹیلی جنس قانون کے تابع ہیں جس کے تحت انہیں چینی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔پیٹرسن نے کہا کہ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا کہ آیا ان آلات کے ذریعے جمع کی گئی حساس معلومات، تصاویر اور آڈیو آسٹریلیا کے شہریوں کے مفادات کے خلاف خفیہ طور پر چین کو واپس بھیجی جارہی ہیں۔
(اس رپورٹ میں شامل کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )