پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف آئی اے' کا کہنا ہے کہ ملک میں بچوں کی غیر اخلاقی وڈیوز بنا کرانٹرنیٹ پر لوڈ کرنے کے زیادہ تر واقعات صوبہ پنجاب کے وسطیٰ اضلاع میں رونما ہورہے ہیں۔
'ایف آئی اے ' کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ بچوں سے متعلق قابل اعتراض ویڈیوز بنا کر ان کا استحصال کرنے کے الزام میں متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کے عہدیدار عمران حیدر نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہا کہ ان واقعات میں ملوث افراد ایک خاص قسم کے سافٹ وئیر کی مدد سے بچوں سے متعلق قابل اعتراض مواد کو انٹرنیٹ پر شائع کرتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان افراد سے متعلق کارروائی بین الاقوامی پولیس کی تنظیم انٹرپول اور مختلف ممالک کی پولیس کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنا پر کی گئی ہے۔
"یہ لوگ انٹرنیٹ پر مختلف سافٹ وئیر استعمال کرتے ہیں اور یہ ایسے سافٹ وئیر ہوتے ہیں جن سے استعمال کرنے والی کی شناخت سامنے نہیں آتی۔ ہمیں انٹرپول اور مختلف ملکوں کی طرف سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ بعض لوگ غیر اخلاقی مواد کو انٹرنیٹ پر تقیسم کر رہے ہیں۔"
عمران حیدر نے کہا ایسی اطلاعات ملنے کے بعد ایف آئی اے نے اب تک لگ بھگ نو مقدمات درج کر کے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
'ایف آئی اے' کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب قصور شہر میں سات سالہ زینب سمیت متعدد کم عمر لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات کی ملک میں ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔
زینب کے واقعہ میں ملوث ملزم کو اگرچہ گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم ملک میں بچوں کے خلاف ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہونے والے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور سماجی و سیاسی حلقوں کی طرف سے ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قوانین کے موثر اطلاق کےمطالبات سامنے آرہے ہیں۔
پارلیمان کی ایوان زیریں کی انسانی حقوق کے متعلق کمیٹی کے رکن صاحبزاہ یعقوب نے کہا کہ کمیٹی بچوں کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد کے لیے قانون کا مسودہ وضع کرنے کے لیےکام کر رہی ہے تاکہ ایسے واقعات کے مرتکب افراد کے لیے فوری اور سخت سز اؤں کو یقینی بنا یا جا سکے۔
دوسری طرف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مردان میں کم عمر بچی عاصمہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے صوبہ خیبر پختوانخواہ کی پولیس کے سربراہ اور ایڈووکیٹ جنرل کو منگل کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔
عاصمہ کو 13 جنوری کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا لیکن تاحال اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔