عراق کے دارالحکومت بغداد میں حساس علاقے "گرین زون" میں گھس کر پارلیمنٹ کے عمارت پر دھاوا بولنے والے سیکڑوں مظاہرین اور اسی علاقے میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
شعیہ عالم دین مقتدیٰ الصدر کے یہ حامی وزیراعظم کی طرف سے کابینہ میں ردوبدل کے اپنے مقتدیٰ کے مطالبے کو تسلیم نہ کیے جانے کے خلاف برہم ہیں۔
اتوار کو وزیراعظم حیدر العبادی نے ایک بیان میں کہا کہ بغداد میں صورتحال پوری طرح سے سکیورٹی فورسز کے قابو میں ہے۔
"میں مظاہرین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ یہاں سے چلے جائیں اور پرامن طریقے سے اپنا احتجاج کریں، اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں جو کہ تمام عراقیوں کی املاک ہیں۔"
مزید برآں انھوں نے حکام سے کہا کہ وہ قانون سازوں اور سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
گرین زون میں مختلف وزارتوں کے علاوہ غیر ملکی سفارتخانے بشمول امریکی سفارتخانہ بھی واقع ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہفتہ کو مظاہرین کے دھاوا بولے جانے کے بعد کے متعدد مناظر کی وڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جس میں انھیں ان دو عراقی قانون سازوں کو تھپڑ رسید کرتے ہوئے دکھایا گیا جو ہجوم سے بچ نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق گرین زون میں رہائش پذیر متعدد قانون ساز اس علاقے سے منتقل ہوگئے ہیں جب کہ بعض ملک بھی چھوڑ گئے ہیں۔
امریکی سفارتخانے نے ہفتہ کو سامنے آنے والی ان اطلاعات کو مسترد کیا ہے کہ سفارتخانے سے لوگ منتقل ہوئے یا پھر اس عمارت میں عراقی حکام کو پناہ دی گئی۔
مقتدیٰ الصدر کے حامی کئی ماہ سے گرین زون کے باہر مظاہرے کرتے آرہے تھے۔ ہفتہ کو ہی مقتدیٰ نے متنبہ کیا تھا کہ سرکای بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تحریک یا انقلاب کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔