عراق کے نیم خود مختار کرد اکثریت والے علاقے اربیل میں ایرانی سپاہ ’پاسدارانِ انقلاب‘ کے بیلسٹک میزائل حملے کے بعد عراق نے ایران سے بطور احتجاج اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایران نے شمالی عراق میں میزائل حملے کو اسرائیلی جاسوسوں کے خطرے کے خاتمے سے تعبیر کیا تھا۔ البتہ اس حملے کے بعد دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
ایران نے پیر کو کردستان میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے مرکز اور شام میں داعش کے ٹھکانوں کو میزائل حملوں میں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ایران نے اس حملے کا دفاع بھی کیا ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کا کہنا ہے کہ تہران دوسرے ممالک کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا احترام کرتا ہے۔ لیکن ایران کو یہ جائز حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کے انسداد کے لیے اقدامات کرے۔
ایرانی حملوں کے بعد یہ خدشات مزید گہرے ہو رہے ہیں کہ فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیل کی حماس کے خلاف جاری جنگ اب مشرقِ وسطیٰ تک پھیل سکتی ہے اور عراق ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کا مرکز بن سکتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں امریکہ نے ایران کے حامی مسلح گروہوں کی تنصیبات اور اعلیٰ عہدیداران کو عراق میں نشانہ بنایا ہے۔
SEE ALSO: امریکی بحریہ نے حوثیوں کے لیے فوجی سامان لے جانے والا جہاز پکڑ لیاامریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی عراق میں کارروائی امریکی فورسز اور اس کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے جواب میں کی گئی ہے۔
ایران کی فورس پاسدارانِ انقلاب نے پیر کو کیے گئے حملوں کے بعد جاری بیان میں تسلیم کیا تھا کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد اس کی یہ پہلی باقاعدہ عسکری کارروائی تھی۔
پاسدارانِ انقلاب نے اس حملے کی وجہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد ایرانی عسکری کمانڈروں اور تہران کی اتحادی فورسز کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو قرار دیا ہے۔
ایران کے اربیل میں بیلسٹک میزائل حملوں کے حوالے سے عراقی وزیرِ اعظم شیاع السوڈانی نے کہا ہے کہ یہ عراق کے خلاف واضح جارحیت اور خطرناک پیش رفت ہے۔
سرکاری میڈیا پر چلنے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ ایرانی حملوں سے دونوں ملکوں کے درمیان قائم مضبوط تعلقات متاثر ہوں گے۔ عراق اپنی خود مختاری کے لیے تمام قانونی اور سفارتی اقدامات اٹھانے کا اختیار رکھتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عراق نے اربیل میں بیلسٹک میزائل حملے کے بعد بغداد میں ایران کےچ سفارت کار کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا ہے۔
دوسری جانب عراقی کردستان خطے کے وزیرِ اعظم مسرور بارزانی نے ایرانی حملے کو کرد عوام کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے حملے میں امریکی قونصل خانے کے قریب رہائشی علاقے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں چار افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے۔
میزائل حملے میں امیر ترین کرد تاجر پیشرو مجید آقا دیزائی اور ان کے خاندان کے بعض افراد کی موت ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ پیشرو مجید آقا دیزائی کردستان پر حکمرانی کرنے والے قبیلے بارزانی سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کردستان میں ریئل اسٹیٹ کے کئی بڑے پروجیکٹس ہیں جب کہ وہ سیکیورٹی کمپنی اور پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت سے بھی وابستہ تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عراق کی قومی سلامتی کے مشیر قاسم محمد جلال الاعرجی الحسينی نے پاسدارانِ انقلاب کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ جس مقام کو نشانہ بنایا گیا وہ اسرائیل کے جاسوسوں کا مرکز تھا۔
قاسم محمد جلال نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ مقام موساد کا مرکز تھا تو ہم نے اس مقام کا دورہ کیا اور وہاں کا ہر کونا چھان مارا۔ لیکن شواہد سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ ایک عام رہائشی گھر تھا جس کے مالک اربیل سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخص تھے۔
اسرائیل کی حکومت کے ترجمان ایوی ہیمان منگل کو پریس بریفنگ میں جب ایران کے موساد کے مرکز پر حملے پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی قیاس آرائی نہیں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران مسلسل اپنی حامی تنظیموں کو کئی محاذوں پر اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
انہوں نے ایران کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری ایران کی خلاف ورزیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور خطے میں امن کا مطالبہ کرے۔
SEE ALSO: ایران کا کردستان میں موساد کا مرکز تباہ کرنے کا دعویٰ، امیر ترین تاجر بھی ہلاکیورپی ملک فرانس نے ایران پر عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے جب کہ امریکہ نے ان حملوں کو بلا جواز قرار دیا ہے۔
ایران ماضی میں عراق کے شمالی علاقوں میں کارروائی کرتا رہا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ اس خطے میں ایران کے علیحدگی پسند گروہ اور اسرائیل کے ایجنٹ متحرک ہیں۔
عراق نے ایران کے علیحدگی پسند گروہوں کے خدشات کے سبب گزشتہ برس اس خطے میں مزید اہلکار تعینات کیے تھے جب کہ اس نے تہران سے اس حوالے سے سیکیورٹی کا ایک معاہدہ بھی کیا تھا۔
ایران کے اس حملے کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے خطے میں پھیلنے کے خدشات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ جنگ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کو کیے گئے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
اسرائیلی حکام نے حماس کے حملے میں 1200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جن میں 300 سے زائد فوجی اہلکار شامل تھے۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے اس دن غزہ کا محاصرہ کر کے جنگ شروع کر دی تھی۔
اس جنگ کے 100 دن میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق 24 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی موت ہوئی ہے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
حالیہ عرصے میں لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ، یمن کے دارالحکومت میں کئی برس سے قابض حوثی باغی اور عراق و شام میں ایران کی حامی عسکری تنظیموں کی اسرائیل کے خلاف اقدامات اور جھڑپیں سامنے آئی ہیں۔
گزشتہ ماہ شام میں ایک حملے میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے عہدیداران کی اموات ہوئی تھی جن میں شام کی فوج کے لیے اعلیٰ مشیر بھی شامل تھے۔