کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بازیاب ہونے والے ڈاکٹر سعید نے کہا کہ انھیں اس بارے میں علم نہیں کہ ان کی رہائی کے لیے کس نے اور کتنا تاوان دیا۔
اسلام آباد —
بلوچستان سے اغوا ہونے والے ڈاکٹر سعید احمد خان کو تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد بازیاب کرا لیا گیا تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان کی رہائی کے لیے تاوان ادا کیا گیا یا نہیں ۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر سعید کو 16 اکتوبر کو اسپتال سے گھر جاتے ہوئے کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ سے نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا۔ ان کی رہائی میں ناکامی کے بعد صوبے کے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر رکھی تھی۔
بدھ کو کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بازیاب ہونے والے ڈاکٹر سعید نے کہا کہ انھیں اس بارے میں علم نہیں کہ ان کی رہائی کے لیے کس نے اور کتنا تاوان دیا۔’’ مجھے نہیں پتا لیکن میرا خیال ہے کہ تاوان دیا گیا ہے کس نے دیا، کس بھائی نے کس بہن نے یا میری بیگم نے کیا کچھ کیا مجھے علم نہیں۔‘‘
ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کا اغوا اور ان کی ٹارگٹ کلنگ بہت غلط ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول اس سے نا صرف ڈاکٹروں کے اہل خانہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ’’شفا کے منتظر ہزاروں، لاکھوں مریض‘‘ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
اس موقع پر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر سلطان ترین نے الزام لگایا کہ حکومت نے مغوی ڈاکٹر کی رہائی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے اور یہ کام سرکار کا تھا کہ وہ ڈاکٹر سعید کو بازیاب کراتی۔
’’بلوچستان سے 16 ڈاکٹر اغوا ہوئے ہمارا مطالبہ پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ڈاکٹروں کے علاوہ حالیہ برسوں میں تعلیم اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے غیر مقامی افراد کے اغوا اور قتل کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔
حکومت ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکری تنظیموں پر عائد کرتی ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بلوچستان میں امن وامان کے حوالے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے گزشتہ ماہ اپنے عبوری حکم نامے میں کہا تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت بلوچستان حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی میں وہ ناکام ہو چکی ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری سمیت بلوچستان کے عوام کے ’احساس محرومی‘ کو ختم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کررہی ہے جس میں مقامی نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے ہزاروں مواقع پیدا کرنا بھی شامل ہے۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر سعید کو 16 اکتوبر کو اسپتال سے گھر جاتے ہوئے کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ سے نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا۔ ان کی رہائی میں ناکامی کے بعد صوبے کے ڈاکٹروں نے ہڑتال کر رکھی تھی۔
بدھ کو کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بازیاب ہونے والے ڈاکٹر سعید نے کہا کہ انھیں اس بارے میں علم نہیں کہ ان کی رہائی کے لیے کس نے اور کتنا تاوان دیا۔’’ مجھے نہیں پتا لیکن میرا خیال ہے کہ تاوان دیا گیا ہے کس نے دیا، کس بھائی نے کس بہن نے یا میری بیگم نے کیا کچھ کیا مجھے علم نہیں۔‘‘
ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کا اغوا اور ان کی ٹارگٹ کلنگ بہت غلط ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول اس سے نا صرف ڈاکٹروں کے اہل خانہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ’’شفا کے منتظر ہزاروں، لاکھوں مریض‘‘ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
اس موقع پر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر سلطان ترین نے الزام لگایا کہ حکومت نے مغوی ڈاکٹر کی رہائی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے اور یہ کام سرکار کا تھا کہ وہ ڈاکٹر سعید کو بازیاب کراتی۔
’’بلوچستان سے 16 ڈاکٹر اغوا ہوئے ہمارا مطالبہ پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ڈاکٹروں کے علاوہ حالیہ برسوں میں تعلیم اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے غیر مقامی افراد کے اغوا اور قتل کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔
حکومت ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکری تنظیموں پر عائد کرتی ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بلوچستان میں امن وامان کے حوالے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے گزشتہ ماہ اپنے عبوری حکم نامے میں کہا تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت بلوچستان حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی میں وہ ناکام ہو چکی ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری سمیت بلوچستان کے عوام کے ’احساس محرومی‘ کو ختم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کررہی ہے جس میں مقامی نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے ہزاروں مواقع پیدا کرنا بھی شامل ہے۔