قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن ملک کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں شعبہ تعلیم کی صورتحال دیگر صوبوں کی نسبت غیر تسلی بخش رہی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے بین الاقوامی امدادی اداروں خصوصاً امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے تعاون سے یہاں معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔
صوبائی محکمہ تعیلم کے ڈپٹی سیکرٹری طیب لہڑی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منصوبوں میں اولین ترجیح اسکولوں میں بچوں کا اندراج یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو تربیت فراہم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تقریباً 23 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور حکومت نے نئی پالیسی کے تحت ایک پروگرام شروع کیا ہے جس سے یہ بچے استفادہ کر سکیں گے۔
"ایک پروگرام شروع کر رہے ہیں یہ ان بچے بچیوں کے لیے ہے جن سے اسکول مس ہوا، یعنی وہ کلاس اٹینڈ نہیں کر سکے، لہذا ان کے لیے ایک شارٹ کورس تیار کیا ہے، ہماری یہ کوشش ہے کہ یہ دو سال کا کورس مکمل کرنے کے بعد فوراً وہ مڈل کے امتحان میں بیٹھے اور آگے اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔"
صوبے میں خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
"ہماری ترجیح ہے کہ جتنی بھی گرلز اسکولوں کی کمی ہے انھیں پورا کریں۔۔۔ ورلڈ بینک کا گرلز پروموٹنگ ایجوکیشن کا پروگرام تھا اور پھر ابھی اور فنڈز مل رہے ہیں اور حکومت بلوچستان کی یہ ترجیح ہے کہ کم ازکم پرائمری تک مخلوط تعلیم ہو جہاں خواتین اور بچیوں کو زیادہ مواقع ملیں۔"
طیب لہڑی کا کہنا تھا کہ اساتذہ کی تربیت کے لیے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی یعنی یو ایس ایڈ کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کو حکومت نے صوبائی تعلیمی پالیسی میں بھی شامل کر لیا ہے۔
"ایک نیا دو سالہ پروگرام جو ایف ایس سی کے بعد شروع ہوتا ہے اس پروگرام میں طلبا کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تعلیم و تربیت دی جائے گی۔۔۔ یو ایس ایڈ نے ایک پروگرام شروع کیا تھا اس کو ہم نے اب اپنی پالیسی میں شامل کر لیا ہے۔"
حالیہ برسوں میں صوبے میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں متعدد اساتذہ کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا جب کہ ان کے اغوا کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ اسی بنا پر بہت سے اساتذہ نے دیگر صوبوں میں تبادلے کے لیے درخواستیں بھی دے رکھی تھیں۔
ان واقعات سے بلاشبہ صوبے میں تعلیمی شعبہ خاصا متاثر ہوا لیکن صوبائی حکام کے بقول سلامتی کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات کی وجہ سے ایسے واقعات میں ماضی کی نسبت خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔