صوبے میں بدامنی کے تدارک کے لیے پالیسی سازی پر صوبائی کابینہ نے تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس بلانے کا فیصلہ بھی کیا ہے جو توقع ہے کہ دسمبر میں منعقد ہو گی۔
کوئٹہ —
قدرتی وسائل سے مالامال لیکن پسماندہ صوبہ بلوچستان کئی برسوں سے دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہے جہاں بم دھماکوں، ہدف بنا کر قتل کرنے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے علاوہ بعض علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے ملسح کارروائیوں کے باعث عوام خوف و ہراس کی فضا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
لیکن رواں سال عام انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ برسوں کی نسبت صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں نسبتاً بہتری آئی ہے۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ماضی کی نسبت صوبے کے مسائل خصوصاً بلوچ عوام کا تحفظ ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
’’یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرے، تو اس سلسلے میں جب آپ سنجیدگی دکھاتے ہیں، آپ اپنی فورسز کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے بلکہ ان کی حمایت کرتے ہیں تو یہ تبدیلی آپ کو اور بہتر انداز میں نظر آئے گی۔‘‘
بلوچستان میں نیم فوجی فورس فرنیئر کور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر لوگوں کے خلاف بے جا کارروائیاں کرنے سمیت جبری گمشدگیوں اور ماورائے قانون قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ جسے اس فورس کے عہدیدار مسترد کرتے رہے ہیں۔
صوبائی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد، علیحدگی پسند تنظیموں کی ریاست مخالف کارروائیوں اور دیگر جرائم کو ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دینے کی بجائے حکومت ان سے علیحدہ علیحدہ نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
’’ہم تمام معاملات چاہے وہ اسٹریٹ کرائم ہوں، منظم جرائم ہوں، ہمارے یہاں جو علیحدہ پسند تحریکیں چل رہی ہیں جو شدت پسندوں کی کارروائیاں ہیں ہم تمام کو علیحدہ علیحدہ دیکھتے ہیں اور اس پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ غورو خوض کرتے ہوئے ایک جامع منصوبہ مرتب کریں لوگوں کے تحفظ کے لیے۔‘‘
سرفراز بگٹی نے بتایا کہ بلوچستان میں بھی خصوصی تربیت یافتہ انسداد دہشت گردی فورس کا قیام زیر غور ہے۔
صوبے میں بدامنی کے تدارک کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے کے لیے رواں ہفتے صوبائی کابینہ نے تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس بلانے کا فیصلہ بھی کیا جو توقع ہے کہ دسمبر میں منعقد ہوگی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ بارہا اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ تشدد کے واقعات کے خاتمے کے لیے تمام ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی بعض بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔
مرکزی حکومت کی طرف سے ستمبر میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی وزیراعظم نے بلوچستان میں امن و امان کے لیے وزیراعلیٰ مالک کو مینڈیٹ دیتے ہوئے انھیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔
لیکن رواں سال عام انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ برسوں کی نسبت صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں نسبتاً بہتری آئی ہے۔
صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ماضی کی نسبت صوبے کے مسائل خصوصاً بلوچ عوام کا تحفظ ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
’’یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرے، تو اس سلسلے میں جب آپ سنجیدگی دکھاتے ہیں، آپ اپنی فورسز کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے بلکہ ان کی حمایت کرتے ہیں تو یہ تبدیلی آپ کو اور بہتر انداز میں نظر آئے گی۔‘‘
بلوچستان میں نیم فوجی فورس فرنیئر کور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر لوگوں کے خلاف بے جا کارروائیاں کرنے سمیت جبری گمشدگیوں اور ماورائے قانون قتل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ جسے اس فورس کے عہدیدار مسترد کرتے رہے ہیں۔
صوبائی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد، علیحدگی پسند تنظیموں کی ریاست مخالف کارروائیوں اور دیگر جرائم کو ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دینے کی بجائے حکومت ان سے علیحدہ علیحدہ نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
’’ہم تمام معاملات چاہے وہ اسٹریٹ کرائم ہوں، منظم جرائم ہوں، ہمارے یہاں جو علیحدہ پسند تحریکیں چل رہی ہیں جو شدت پسندوں کی کارروائیاں ہیں ہم تمام کو علیحدہ علیحدہ دیکھتے ہیں اور اس پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ غورو خوض کرتے ہوئے ایک جامع منصوبہ مرتب کریں لوگوں کے تحفظ کے لیے۔‘‘
سرفراز بگٹی نے بتایا کہ بلوچستان میں بھی خصوصی تربیت یافتہ انسداد دہشت گردی فورس کا قیام زیر غور ہے۔
صوبے میں بدامنی کے تدارک کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے کے لیے رواں ہفتے صوبائی کابینہ نے تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس بلانے کا فیصلہ بھی کیا جو توقع ہے کہ دسمبر میں منعقد ہوگی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ بارہا اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ تشدد کے واقعات کے خاتمے کے لیے تمام ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی بعض بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔
مرکزی حکومت کی طرف سے ستمبر میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی وزیراعظم نے بلوچستان میں امن و امان کے لیے وزیراعلیٰ مالک کو مینڈیٹ دیتے ہوئے انھیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔