جامعہ کراچی میں منگل کو ہونے والے خودکش حملے میں دو بچوں کی ماں کا ملوث ہونا ماہرین کی نظر میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کس حد تک سنگین ہوچکا ہے۔ اور بلوچ آبادی میں محرومیوں کا احساس اور غصہ کس نہج تک پہنچ چکا ہے۔
واشنگٹن میں قائم تھینک ٹینک نیولائن انسٹیٹویٹ کے ڈائریکٹر انالٹیکل ڈیویلپمنٹ اور دہشت گردی کے امور پر نظر رکھنے والے ماہر ڈاکٹر کامران بخاری کے نزدیک پاکستان میں خاتون خودکش حملہ آور کا موجود ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ ملک میں انتہا پسندی موجود ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسندوں میں خواتین کی شمولیت اور ایک خوشحال گھرانے کی خاتون کا خود کش بمبار بن جانا غیر معمولی ہے۔ اس کے لیے جہاں ان کی ذہن سازی کی گئی ہوگی وہیں وہ حالات بھی موجود ہیں کہ جن میں ایسی ذہن سازی ممکن ہے۔
واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی بم دھماکے میں ملوث خاتون شاری بلوچ ، بلوچستان یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ تھیں اور ساتھ ہی اسکول ٹیچر بھی۔ ان کے دو بچے ہیں اور قریبی رشتے دار اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں یا رہ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے تھے کہ وہ علیحدگی پسند تحریک میں اس حد تک آگے بڑھ چکی ہیں کہ خود کش حملہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گی۔
بلوچستان کے حقوق کی تحریک خصوصا لاپتہ افراد کی بازیابی کی مہم میں خواتین ایک عرصے سے حصہ لے رہی ہیں۔ لانگ مارچ، بھو ک ہڑتال، مظاہروں اور سوشل میڈیا ایکٹیوازم میں بلوچستان کی خواتین نمایاں نظرآتی ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سرگرم کارکن ماہ رنگ بلوچ نے وی او اے کے نمائندہ مرتضی زہری کو بتایا کہ جب ریاستی جبر بلا امتیاز مرد اور عورت پر اس قدر بڑھ جائے اور انصاف کی راہ نہ ملے ، عدلیہ اور پارلیمنٹ بھی بے بس نظر آئے تو اس صورت حال سے کیا مرد اور کیا عورت ، سب متاثر ہوتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسی بلوچ خواتین اجتماعی سزا کا نشانہ بنی ہیں جن کے خاندان کے مرد اپنے سیاسی نظریات کے سبب نظر بند ہوئے یا مبینہ طور پر لاپتہ ہو گئے۔
SEE ALSO: کراچی یونیورسٹی حملہ: 'بلوچ طلبہ کو خوف ہے کہ ان پر پہلے سے زیادہ شک کیا جائے گا'کامران بخاری کےمطابق ایک پڑھی لکھی خوشحال عورت اور دو بچوں کی ماں کا خود کش حملہ کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس معاشرے میں کمیونل افیکٹ یعنی آبادی کے حالات کا اثر کس حد تک بڑھ گیا ہے ۔یہ ریاست اور اس کے مقتدر حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ مسنگ پرسن کے مسئلے ، لاشیں برآمد ہونے اور بلوچوں کے مطالبات کو نظر انداز کرنے کے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں تین دہائیوں تک تدریس کے فرائض انجام دینے والے ماہر سیاسیات ڈاکٹر نادر بخت کی تحقیق کا محور بلوچستان کی سیاست رہی ہے۔ ان کی نظر میں جن منصوبہ سازوں نے ایک خاتون کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل پر پوری دنیا توجہ دے کیونکہ وہ مقامی سطح پر انصاف کے لیےنا امید ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر نادر بخت کی رائے میں دہشت گردی کی اس لہر میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا ۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے منصوبہ ساز وں کو معلوم ہے کہ خود کش دھماکے کے بعد تفتیش کا جو عمل شروع ہوگا وہ بھی ان کے حق میں جائے گا۔ تفتیش کے دوران درجنوں لوگ پکڑے جائیں گے۔ ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔جس سے عام بلوچوں کے احساس محرومی کو تقویت ملے گی اور آگ مزید بھڑکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیش بھی ضروری ہے لیکن اس کے دوران اتنی بگاڑ بھی آئے گی کہ دہشت گردوں کو ذہن سازی کے لیے بہت سے نئے لوگ مل جائیں گے۔
جامعہ کراچی میں دھماکہ کرنے والی خود کش بمبار شاری بلوچ کا کراچی میں فلیٹ تفتیشی حکام نے سیل کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آور خاتون اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ پانچ کمروں کے اس فلیٹ میں رہ رہی تھیں۔ لیکن دہشت گردی کے اس واقعہ کے بعد سے شوہر اور بچے لاپتہ ہیں۔ حکام کے مطابق اس دہشت گردی میں معاونت کے شبہ میں ایک شخص کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے تاہم حکام نے اس کی شناخت ابھی تک ظاہر نہیں کی۔
SEE ALSO: چین کے شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے؛ کراچی خودکش حملے کے بعد بیجنگ کی تنبیہشاری بلوچ کی ذہنی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار تھیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والی پڑھی لکھی خاتون کی مکمل ذہن سازی کی گئی ہے اور یہ کام ایک دن میں نہیں ہوتا ۔
ڈاکٹر نادر کے مطابق نہ صرف مستقبل میں مزید خواتین کی طرف سے ایسا قدم اٹھانے کا امکان اپنی جگہ موجود ہے بلکہ اگر بلوچستان کے دیرینہ مسائل کا حل نہ نکالا گیا توانہیں خدشہ ہے کہ عسکریت پسند توجہ حاصل کرنے کے لیے بچوں کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہ کریں۔