بلوچستان میں انسداد پولیو مہم، چار لاکھ بچوں کو ویکسین پلائی گئی

بلوچستان میں حالیہ مہم کے دوران بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دی جا رہی ہے۔

بلوچستان میں علماءاور قبائلی عمائدین کی کو ششوں سے بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والوں کا تناسب کم ہو کر صرف ایک فیصد رہ گیا ہے۔

ستارکاکڑ

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پولیو کے ایک نئے وائرس کے انکشاف کے بعد صوبائی انتظامیہ نے فوری طور پر پولیو کی روک تھام کی مہم شروع کی ۔ پانچ روزہ اس مہم کے دوران چار لاکھ سے زیادہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کے قطرے پلائے گئے۔

کو ئٹہ کے گندے نالوں کے پانی کے تازہ تجزیے میں انسانی جسم کو عمر بھر کے لئے معذور کرنے والی بیماری پولیو ٹائپ ٹو کے نئے وائرس س کے انكشاف نے صوبائی حکام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور انہیں پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لئے انسداد پولیو مہم فوری طور پر شروع کرنے پر مجبور کردیا۔

کو ئٹہ میں پولیو ایمرجینسی سینٹر کے ذرائع کے مطابق نئے وائرس س کے انكشاف کے بعد کو ئٹہ کے 39 یونین کونسلوں میں پانچ روز کے لئے انسداد پولیو مہم چلائی گئی اور چار لاکھ سے زیادہ بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلائے گئے۔

صوبے کے دیگر 27 اضلاع میں، جن پاک افغان سرحد کے قریب واقع سات اضلاع شامل ہیں، پانچ سال سے کمر عمر لاکھوں بچوں کو پولیو کی روک تھام کی ویکسین کے قطرے پلائے جائیں گے۔

پولیو ایمرجینسی سینٹر کے نائب ناظم ڈاکٹر آفتاب کے مطابق کچھ عر صہ پہلے کوئٹہ شہر کے نکاسی آب کے گندے نالوں کے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جس میں پولیو کے ٹائپ ٹو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تقریباً چار بار انوائرمنٹل سمپل لیتے ہیں، گندے پانی کے نالوں سے۔ جس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں آبادی کو زیادہ خطرات ہیں۔ وہاں سے جب نمونے لئے گئے تو وہاں ٹائپ ٹو وائرس موجود تھا۔ یہ بالکل ایک نیا وائرس ہے۔ 2013 میں قلعہ عبداللہ بھی اس طرح کا وائرس ظاہر ہوا تھا اور پولیو کے 15 کے قریب مریض سامنے آئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا، تین ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

پولیو ایمرجینسی سینٹر کے ڈپٹی کوارڈی نیٹر ڈاکٹر افتاب کا کہنا ہے کہ ٹائپ ٹو وائرس بعض علاقوں میں پولیو کی روک تھام کی کمزور مہم کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ نئے وائرس کے انكشاف کے بعد صوبے میں معمول سے ہٹ کر انسداد پولیو کے دو خصوصي مہمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ پولیو کے نئے وائرس کی منتقلی کو روکا جا سکے۔

تاہم انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اپریل 2016 میں جب انسداد پولیو مہم کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کو ٹائپ ٹو وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات موجود ہیں کیونکہ انہیں انسداد پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے۔ نئے مہم کے دوران اُن کو بھی انسداد پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پولیو سے مکمل طور پر اس وقت محفوظ ہوسکتے ہیں جب ہم بھرپورمہم چلائیں اور 95 فی صد بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائیں۔ ہم یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

ڈاکٹر آفتاب کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد سے متصل ضلع قلعہ عبداللہ میں تین سال پہلے پولیو کے ٹائپ ٹو وائرس سے 15 بچے متاثر ہوئے تھے۔ اس طرح ضلع پشین سے بھی نومبر تک مثبت انوائرمنٹل سمپلز آرہے تھے۔ لیکن بار بار کامیاب پولیو مہم کے بعد اب وہ بھی ختم ہو گئے ہیں۔ ضلع قلعہ عبداللہ میں صرف ایک یونین کونسل سے پولیو کے مثبت نمونے ملے ہیں۔ وہاں پر بھی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے اور ہم اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہر مہم کے دوران بعض علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن اب علماءاور قبائلی عمائدین کی کو ششوں سے یہ تناسب کم ہو کر صرف ایک فیصد رہ گیا ہے۔ اسی طرح کسی وجہ سے بے گھر یا خانہ بدوشوں کے بچے کبھی انسداد پولیو سے رہ جاتے ہیں لیکن اُنہیں کسی دوسرے علاقے میں ویکسین کے قطرے پلا دیئے جاتے ہیں۔ صوبے میں اب ایسا کو ئی بچہ نہیں رہا جسے انسداد پولیو کے تین مہمات کے دوران قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔

ڈاکٹر آفتاب کا کہنا ہے کہ پولیو کی روک تھام کے سلسلے میں بلوچستان میں کافی مؤ ثر حکمت عملی طے کی گئی ہے۔ پولیو کی ٹیم جہاں بھی جاتی ہے وہ اُس علاقے کے تمام گھروں اور گلی میں گھومنے والے بچوں کو بھی ویکسین کے قطرے پلا تی ہے ۔ اسی طرح اسپتالوں، کاروباری مراکز، اور پاکستان میں داخلے کے مقامات پر ہماری ٹیم کے ارکان موجود ہیں اور وہ بچوں کو ویکسین کے قطرے پلاتے ہیں۔

بلوچستان ضلع قلعہ عبداللہ میں گذشتہ بدھ کو 2017 میں پولیو کا پہلا کیس سامنے آیا۔ جبکہ 2016 کے دوران پولیو کے وائرس سے صرف ایک بچہ متاثر ہوا تھا جس کے بعد معمول کی انسداد پو لیو مہم روک دی گئی تھی ۔ لیکن اب پولیو کے ٹائپ ٹو وائرس کے موجودگی کی خبروں کے بعد صوبے میں فوری طور پر خصوصي مہم شروع کا فیصلہ کیاگیا۔

پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں بعض مذہبی انتہا پسند گر و پ پولیو کی روک تھام کی مہم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ 2016 کے دوران کو ئٹہ میں ایک انسداد پولیو مر کز کے سامنے پولیس اور ایف سی کے اہل کاروں پر خود کش حملے میں15 سیکیورٹی اہل کاروں سمیت 17 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ اس سے پہلے بھی انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر جان لیو ا حملے کئے گئے ہیں۔