اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کشمیر کی سرحد پر تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طرفین کو صبروتحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے پریس آفس سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’’بان کی مون نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر تشدد میں حالیہ اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے مبینہ طور پر دونوں طرف کافی جانی نقصان ہوا ہے جس میں شہری بھی شامل ہیں۔‘‘
بیان میں بان کی مون کی طرف سے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بان کی مون اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پاکستان اور بھارت پر زور دے چکے ہیں کہ وہ اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
بھارتی اور پاکستانی حکام کے بیانات کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران متنازع علاقے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی عارضی حد بندی لائن پر فائزنگ و گولہ باری سے دونوں جانب کم از کم آٹھ افراد ہلاک جبکہ 14زخمی ہو گئے ہیں۔
کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے علاوہ ورکنگ باؤنڈری پر وقفے وقفے سے فائرنگ و گولہ باری کا یہ سلسلہ کئی ماہ سے جاری ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
بان کی مون نے اپنے بیان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان قومی سلامتی کے مشیران کی سطح پر 23 اور 24 اگست کو دہلی مجوزہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے روس کے شہر اوفا میں ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیر سرحدی کشیدگی اور دہشت گردی سے جڑے معاملات پر مذاکرات کریں۔
بھارت اپنے ہاں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات، خصوصاً ممبئی بم حملوں کا الزام پاکستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں پر عائد کرتا رہا ہے۔ تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
بھارت نے گزشتہ برس سیکرٹری خارجہ سطح کی مجوزہ ملاقات اس وقت منسوخ کر دی تھی جب اس سے قبل دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز بھی دہلی دورہ کے موقع پر کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ تاہم بھارت نے اس ہفتے ہونے والی ملاقات کو منسوخ کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔
ملاقات میں دہشتگردی سمیت دیگر معاملات زیر غور آنے کی توقع ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کیے بغیر بھارت سے مذاکرات سود مند نہیں ہو سکتے۔