یہ ایسی بستی ہے جو تجارتی اور مالی لحاظ سے خود کفیل ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو نوکری تلاش کرنے کی فکرنہیں رہتی، نہ ہی کاروبار شروع کرنے کیلئے کسی کو پریشان ہونا پڑتا ہے۔۔۔ سب کو ’جما جمایا‘ کاروبار کرنے کو ملتا ہے۔۔کیسے؟ ذیل میں پڑھئے:
کراچی بہت سی گنجان آباد بستیوں کا مسکن ہے۔ انہی بستیوں میں سے ایک ’اورنگی ٹاوٴن‘ بھی ہے۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن، کراچی ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور دیگر ایسے ہی کچھ اور شہری اداروں کی فائلوں اور منصوبوں میں سالوں پہلے سے اسے ’ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
اورنگی کو قریب سے دیکھنے والے اسے کئی حوالوں سے منفرد قرار دیتے ہیں، مثلاً اس کا ملٹی کلچرل ہونا یعنی یہاں کئی ثقافتیں، زبانیں اور ایک دوسرے سے یکسر مختلف بود و باش رکھنے کے باوجود سب ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ اگرچہ ٹاوٴن کی اکثریت بہار سے ہجرت کرکے یہاں آبسنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے، لیکن بنارس سے آنے والے افراد بھی اچھی خاصی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بنگالی، پشتو، اردو، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
بے شک حالیہ برسوں میں اورنگی ٹاوٴن کی نیک نامی کو کئی واقعات نے داغدار کیا۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ اس ٹاوٴن کی ہر آبادی اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتی ہے، مثلاً بنارس ٹاوٴن۔
بھارت کے شہر بنارس کے نام سے منسوب ’بنارس ٹاوٴن‘ شہریوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
پاکستان بننے سے لیکر اب تک شہر کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی اس بستی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تمام باتوں کے باوجود یہ اورنگی ٹاوٴن کا انتہائی روشن پہلو اجاگر کرتی ہے۔
اورنگی، ڈسٹرکٹ ویسٹ میں واقع ہے جبکہ بنارس ٹاوٴن اس کا ایک حصہ ہے جو سیکٹر نائن کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ وہ سیکٹر ہے جہاں سے اورنگی ٹاوٴن کا آغاز ہوتا ہے، لہذا یہاں تک رسائی انتہائی آسان ہے۔
آبادی میں داخل ہوتے ہی دونوں جانب پھیلی بنارسی کپڑوں کی بڑی بڑی دکانیں دیکھ کر ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ بنارس ٹاوٴن آگیا ہے۔ پاکستان میں یہ بنارسی ملبوسات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ ملک کے کونے کونے تک پہنچنے والے تمام بنارسی ملبوسات یہیں سے ہوکر گزرتے ہیں۔
تجارتی لحاظ سے بھی بنارس ٹاوٴن نہایت اہم ہے، جبکہ بنارسی برادری کی سب سے قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس کے تمام افراد ایک خاندان کی طرح ملکر کاروبار کرتے ہیں۔ مثلاً، ایک گھر کے لوگ تانی تیار کرتے ہیں تو دوسرے خاندان والے کھڈی چلاتے ہیں۔ برادری کے کچھ لوگ رنگائی کا کام کرتے ہیں تو کچھ ڈیزائننگ سے وابستہ ہیں۔
گھر گھر تیار ہونے والے بنارسی ملبوسات کی تیاری میں مرد، عورت اور نوجوان سب اس کام کو مل بانٹ کر کرتے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
ملبوسات کی تیاری کا آغاز ہوتا ہے ۔۔ڈیزائننگ سے۔ بنارسی ملبوسات کی ڈیزائننگ انتہائی محنت طلب کام ہے۔ اسے سیکھنے کے لئے بھی کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ اسی ٹاوٴن کے رہائشی اور ماہر ڈیزائنر، طارق اس حوالے سے بتاتے ہیں: ’اس کام کو سیکھنے میں آٹھ سال لگے۔ لیکن، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں نوکری کی تلاش کے لئے کہیں دھکے نہیں کھانے پڑے، بلکہ وہ اپنے ہنر سے اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔‘
کئی گھنٹوں اور بعض اوقات کئی دنوں کی محنت کے بعد تیار کردہ ڈیزائن کھڈی پر جانے سے پہلے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔
ڈیزائن کو گراف پیپر پر انلارج کیا جاتا ہے۔ پھراس گراف پیپر کی مدد سے ڈیزائن کو کارڈ چین پر منتقل کیا جاتا ہے۔ بنارس ٹاوٴن میں کارڈ کی کٹنگ اور اس کی پنچنگ بھی گھر گھر کی جاتی ہے اور مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس کام میں انتہائی مہارت سے اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں۔ ایک تجربہ کار خاتون دوسری کئی خواتین کو اس کی ٹریننگ دیتی ہیں اور یوں یہ کام بڑے پیمانے پر روزی کے حصول کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
کارڈ پنج کرنے والی ایک بزرگ خاتون نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ان کے پورے گھرانے کا خرچ اسی کام سے پورا ہوتا ہے اور وہ اب تک درجنوں لڑکیوں کو یہ کام سیکھا چکی ہیں۔
ریشم قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، جسے بنارسی صنعت اور ملبوسات کی تیاری میں بنیادی جز کی حیثیت حاصل ہے۔ باہر سے درآمد شدہ ریشم کی لچھیوں سے گٹے بنائے جاتے ہیں۔ اسے نرم اور چمکدار بنانے کے لئے ایک مینول مشین کے ذریعے لمبائی کے رخ پر لپیٹ کر تانی بنائی جاتی ہے۔
تانی کو خاص درجہ حرارت پر بلیچ کیا جاتا ہے اور اس پر مطلوبہ رنگ چڑھانے کیلئے ایک خاص قسم کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔اس مرحلے سے گزر کر ہی یہ تانی اسٹریمنگ کے لئے بھیجی جاتی ہے۔
ملبوسات کی تیاری میں کھڈی کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ کھڈی ہی کا کرشمہ ہے کہ ہر قسم کے ملبوسات، خاص طور سے بنارسی ملبوسات، خوب صورتی کے ساتھ تخلیق پاتے ہیں۔ کھڈیاں نوٹنگ کے ذریعے ڈیزائن سے منسلک ہوتی ہیں۔
تیار شدہ کپڑے اگر وزن میں زیادہ ہوں تو انہیں ہلکا کرنے کے لئے ایکسٹرا دھاگے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔۔۔لیکن، ان دھاگوں کو کاٹنے کے لئے بھی نہایت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مہارت خواتین سے بہتر اور کس کے پاس ہوسکتی ہے۔
دھاگوں کی کٹنگ کے بعد اگر ضرورت ہو تو پالش کا مرحلہ آتا ہے، جس کے بعد تیار ملبوسات مارکیٹ میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔
بنارس ٹاوٴن ، بنارسی پارچہ بافی کے حوالے سے پورے ملک میں تو شہرت رکھتاہی ہے، بہت سے دیگر ملکوں کو بھی بنارسی ملبوسات یہیں سے برآمد کئے جاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ریشمی کپڑوں کی بنائی بنارسی برادری کا آبائی پیشہ ہے۔ ٹاوٴن کے بے شمار گھروں میں یہ صنعت پھل پھول رہی ہے۔
اس صنعت کے روح رواں کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے۔ نہ ہی اس صنعت کے رہتے بیروز گاری کا مسئلہ کبھی کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ، تمام گھرانوں کے افراد اپنے آبائی کام سے منسلک رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی یہی انفرادیت دوسرے علاقوں اور برادری کے لئے ایک شاندار مثال ہے۔
اورنگی کو قریب سے دیکھنے والے اسے کئی حوالوں سے منفرد قرار دیتے ہیں، مثلاً اس کا ملٹی کلچرل ہونا یعنی یہاں کئی ثقافتیں، زبانیں اور ایک دوسرے سے یکسر مختلف بود و باش رکھنے کے باوجود سب ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ اگرچہ ٹاوٴن کی اکثریت بہار سے ہجرت کرکے یہاں آبسنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے، لیکن بنارس سے آنے والے افراد بھی اچھی خاصی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بنگالی، پشتو، اردو، بلوچی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
بے شک حالیہ برسوں میں اورنگی ٹاوٴن کی نیک نامی کو کئی واقعات نے داغدار کیا۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ اس ٹاوٴن کی ہر آبادی اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتی ہے، مثلاً بنارس ٹاوٴن۔
بھارت کے شہر بنارس کے نام سے منسوب ’بنارس ٹاوٴن‘ شہریوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
پاکستان بننے سے لیکر اب تک شہر کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی اس بستی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تمام باتوں کے باوجود یہ اورنگی ٹاوٴن کا انتہائی روشن پہلو اجاگر کرتی ہے۔
اورنگی، ڈسٹرکٹ ویسٹ میں واقع ہے جبکہ بنارس ٹاوٴن اس کا ایک حصہ ہے جو سیکٹر نائن کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ وہ سیکٹر ہے جہاں سے اورنگی ٹاوٴن کا آغاز ہوتا ہے، لہذا یہاں تک رسائی انتہائی آسان ہے۔
آبادی میں داخل ہوتے ہی دونوں جانب پھیلی بنارسی کپڑوں کی بڑی بڑی دکانیں دیکھ کر ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ بنارس ٹاوٴن آگیا ہے۔ پاکستان میں یہ بنارسی ملبوسات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ ملک کے کونے کونے تک پہنچنے والے تمام بنارسی ملبوسات یہیں سے ہوکر گزرتے ہیں۔
تجارتی لحاظ سے بھی بنارس ٹاوٴن نہایت اہم ہے، جبکہ بنارسی برادری کی سب سے قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس کے تمام افراد ایک خاندان کی طرح ملکر کاروبار کرتے ہیں۔ مثلاً، ایک گھر کے لوگ تانی تیار کرتے ہیں تو دوسرے خاندان والے کھڈی چلاتے ہیں۔ برادری کے کچھ لوگ رنگائی کا کام کرتے ہیں تو کچھ ڈیزائننگ سے وابستہ ہیں۔
گھر گھر تیار ہونے والے بنارسی ملبوسات کی تیاری میں مرد، عورت اور نوجوان سب اس کام کو مل بانٹ کر کرتے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
ملبوسات کی تیاری کا آغاز ہوتا ہے ۔۔ڈیزائننگ سے۔ بنارسی ملبوسات کی ڈیزائننگ انتہائی محنت طلب کام ہے۔ اسے سیکھنے کے لئے بھی کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ اسی ٹاوٴن کے رہائشی اور ماہر ڈیزائنر، طارق اس حوالے سے بتاتے ہیں: ’اس کام کو سیکھنے میں آٹھ سال لگے۔ لیکن، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں نوکری کی تلاش کے لئے کہیں دھکے نہیں کھانے پڑے، بلکہ وہ اپنے ہنر سے اپنا کاروبار چمکا رہے ہیں۔‘
کئی گھنٹوں اور بعض اوقات کئی دنوں کی محنت کے بعد تیار کردہ ڈیزائن کھڈی پر جانے سے پہلے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔
ڈیزائن کو گراف پیپر پر انلارج کیا جاتا ہے۔ پھراس گراف پیپر کی مدد سے ڈیزائن کو کارڈ چین پر منتقل کیا جاتا ہے۔ بنارس ٹاوٴن میں کارڈ کی کٹنگ اور اس کی پنچنگ بھی گھر گھر کی جاتی ہے اور مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس کام میں انتہائی مہارت سے اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں۔ ایک تجربہ کار خاتون دوسری کئی خواتین کو اس کی ٹریننگ دیتی ہیں اور یوں یہ کام بڑے پیمانے پر روزی کے حصول کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
کارڈ پنج کرنے والی ایک بزرگ خاتون نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ ان کے پورے گھرانے کا خرچ اسی کام سے پورا ہوتا ہے اور وہ اب تک درجنوں لڑکیوں کو یہ کام سیکھا چکی ہیں۔
تانی کو خاص درجہ حرارت پر بلیچ کیا جاتا ہے اور اس پر مطلوبہ رنگ چڑھانے کیلئے ایک خاص قسم کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے۔اس مرحلے سے گزر کر ہی یہ تانی اسٹریمنگ کے لئے بھیجی جاتی ہے۔
ملبوسات کی تیاری میں کھڈی کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ کھڈی ہی کا کرشمہ ہے کہ ہر قسم کے ملبوسات، خاص طور سے بنارسی ملبوسات، خوب صورتی کے ساتھ تخلیق پاتے ہیں۔ کھڈیاں نوٹنگ کے ذریعے ڈیزائن سے منسلک ہوتی ہیں۔
تیار شدہ کپڑے اگر وزن میں زیادہ ہوں تو انہیں ہلکا کرنے کے لئے ایکسٹرا دھاگے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔۔۔لیکن، ان دھاگوں کو کاٹنے کے لئے بھی نہایت مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مہارت خواتین سے بہتر اور کس کے پاس ہوسکتی ہے۔
دھاگوں کی کٹنگ کے بعد اگر ضرورت ہو تو پالش کا مرحلہ آتا ہے، جس کے بعد تیار ملبوسات مارکیٹ میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔
بنارس ٹاوٴن ، بنارسی پارچہ بافی کے حوالے سے پورے ملک میں تو شہرت رکھتاہی ہے، بہت سے دیگر ملکوں کو بھی بنارسی ملبوسات یہیں سے برآمد کئے جاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ریشمی کپڑوں کی بنائی بنارسی برادری کا آبائی پیشہ ہے۔ ٹاوٴن کے بے شمار گھروں میں یہ صنعت پھل پھول رہی ہے۔
اس صنعت کے روح رواں کبھی کسی پر بوجھ نہیں بنے۔ نہ ہی اس صنعت کے رہتے بیروز گاری کا مسئلہ کبھی کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ، تمام گھرانوں کے افراد اپنے آبائی کام سے منسلک رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی یہی انفرادیت دوسرے علاقوں اور برادری کے لئے ایک شاندار مثال ہے۔