بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 2013 میں ایک گارمنٹ فیکٹری کی عمارت میں پیش آنے والے حادثے پر بنائی جانے والی فلم کی نمائش پر عائد پانبدی ختم کر دی ہے۔
فلم کی کہانی فیکٹری میں کام کرنے والی ایک خاتون کے گرد گھومتی ہے جسے 17 دن بعد فیکٹری کے ملبے سے زندہ نکالا گیا تھا۔ اس حادثے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
فلم کے ڈائریکٹر نظر الاسلام خان نے کہا کہ یہ فلم ریشما بیگم کی حقیقی کہانی پر مبنی ہے اور اس المناک واقعے کے دوران اس کے حوصلے کو ظاہر کرتی ہے۔
اس سے قبل ہائی کورٹ نے فلم کی نمائش پر چھ ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف فلم کی پروڈیوسر نے سپریم کورٹ میں اپیل کی جس پر ایک چار رکنی بینچ نے اتوار کی رات ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
پروڈیوسر شمیمہ اختر کا مؤقف تھا کہ فلم پر پابندی ختم ہونی چاہیئے کیونکہ عدالت کی ہدایت پر فلم سے کچھ مناظر نکالنے کے بعد ملک کے سنسر بورڈ نے اس کی نمائش کی اجازت دے دی تھی۔
گزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے فلم ’رانا پلازہ‘ پر پابندی عائد کر دی تھی۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس میں دہشت، ظلم اور تشدد کے مناظر دکھائے گئے ہیں جس سے ملک کی ملبوسات کی صنعت کے ملازمین پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
وکلا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مطلب ہے کہ اب فلم کی نمائش پر کوئی پابندی نہیں مگر یہ واضح نہیں کہ اسے کب ریلیز کیا جائے گا۔
اپریل 2013 میں ہونے والے اس واقعے میں 1,135 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ سینکڑوں افراد کو عمارت کے ملبے کے نیچے سے نکالا گیا۔ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی اس عمارت میں ملبوسات کی پانچ فیکٹریاں کام کر رہی تھیں جو بین الاقوامی کمپنیوں کو مال سپلائی کرتی تھیں۔
جب عمارت گرنا شروع ہوئی تو ریشما بیگم سیٹرھیوں سے نیچے تہہ خانے کی طرف بھاگی جہاں وہ ملبے میں ایک خالی جگہ پھنس گئی۔ وہاں اسے کچھ خشک خوراک اور پانی کی بوتلیں ملیں جنہیں استعمال کرکے وہ اتنے دن زندہ رہی۔ ریشما اب ایک ہوٹل میں کام کرتی ہے۔
خیال ہے کہ عمارت مشینوں اور جنریٹروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکی اور ڈھے گئی۔ دلدلی زمین پر تعمیر کی گئی اس عمارت میں غیر قانونی طور پر مزید منزلوں کا اضافہ کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش سالانہ 25 ارب ڈالر کے ملبوسات برآمد کرتا ہے جن کی زیادہ تر تعداد امریکہ اور یورپ بھیجی جاتی ہے۔ اس صنعت میں چالیس لاکھ کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں جن میں سے اکثر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں ہیں۔