قیدخانے کے داروغے، معین الدین خوندکر نے منگل کے روز بتایا کہ حزبِ مخالف جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے 65 برس کے عبد القادر ملُا کو آدھی رات ڈھاکہ کی مرکزی جیل میں پھانسی دی جائے گی
واشنگٹن —
بنگلہ دیش کے حکام ملک کی بڑی مذہبی جماعت کے ایک راہنما کو پھانسی دینے کی تیاری کر رہے ہیں، جنھیں 1971ء میں ملک کی پاکستان کے خلاف لڑی جانے والی جنگِ آزادی کے دوران سرزد ہونے والے اجتماعی قتل اور زنا بالجبر کے واقعات پر سزا سنائی گئی ہے۔
قیدخانے کے داروغے، معین الدین خوندکر نے منگل کے روز بتایا کہ حزبِ اختلاف، جماعت اسلامی سےتعلق رکھنے والے 65 برس کے عبدالقادر ملُا کو آدھی رات ڈھاکہ کی مرکزی جیل میں پھانسی دی جائے گی۔
تاہم، ڈھاکہ میں ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نامہ نگار نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کی عدالتِ عظمیٰ نے بدھ کے روز ساڑھے چار بجے (یونیورسل ٹائم) تک پھانسی دیے جانے میں مہلت کے احکامات دیے تھے، ایسے میں جب جماعت کے وکلاٴنے قانونی چارہ جوئی سے متعلق جستجو جاری رکھی۔
نامہ نگار، امیر خسرو نے بتایا کہ شہر کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور یہ کہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کو دارالحکومت اور ملک بھر میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ جماعت کے راہنماؤں نے متنبہ کیا ہے کہ پھانسی دیے جانے کے شدید نتائج برآمد ہوں گے۔
ستمبر میں عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے مُلا کو پھانسی دیے جانے کی سزا سنانے کے حکم نامے کے بعد ملک بھر میں ہلاکت خیز جھڑپیں اور ہڑتال شروع ہوگئی تھی۔
بریڈ آڈمز نیو یارک میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی بنگلہ سروس کو بتایا کہ پھانسی کی سزا دیے جانے سے کشیدگی کی لہر کا سامنا کرنا ہوگا۔
جنگی جرائم سے متعلق ایک داخلی عدلت نے ابتدائی طور پر فروری میں مُلا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، لیکن لاکھوں سیکولر مظاہرین نے اِس سزا کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے، جن کے خیال میں یہ سزا بہت تھوڑی ہے۔
دباؤ میں آکر، حکومت نے جنگی جرائم کے قانون میں ترمیم کی، جو گذشتہ وقت سے نافذ العمل سمجھی جائے گی، تاکہ اُسے اپیل کا حق حاصل ہو اور وہ پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرسکے، جو سزا بعدازاں ستمبر میں عدالت عظمیٰ نے سنائی۔
اتوار کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے متنبہ کیا ہے کہ گذشتہ وقت سے نافذ العمل قانون کی بنیاد پر موت کی سزا دیا جانا منصفانہ بین الاقوامی مقدمات کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اِس گروپ اور اقوام متحدہ کے نمائندہ ٴخصوصی نے بھی اِس بات پر زور دیا ہے کہ مُلا کو اپیل کا موقع ملنا چاہیئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مُلا نے ملک کے صدر کو معافی کی درخواست دینے سے انکار کیا ہے، حالانکہ اُن سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔
قیدخانے کے داروغے، معین الدین خوندکر نے منگل کے روز بتایا کہ حزبِ اختلاف، جماعت اسلامی سےتعلق رکھنے والے 65 برس کے عبدالقادر ملُا کو آدھی رات ڈھاکہ کی مرکزی جیل میں پھانسی دی جائے گی۔
تاہم، ڈھاکہ میں ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نامہ نگار نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کی عدالتِ عظمیٰ نے بدھ کے روز ساڑھے چار بجے (یونیورسل ٹائم) تک پھانسی دیے جانے میں مہلت کے احکامات دیے تھے، ایسے میں جب جماعت کے وکلاٴنے قانونی چارہ جوئی سے متعلق جستجو جاری رکھی۔
نامہ نگار، امیر خسرو نے بتایا کہ شہر کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور یہ کہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کو دارالحکومت اور ملک بھر میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ جماعت کے راہنماؤں نے متنبہ کیا ہے کہ پھانسی دیے جانے کے شدید نتائج برآمد ہوں گے۔
ستمبر میں عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے مُلا کو پھانسی دیے جانے کی سزا سنانے کے حکم نامے کے بعد ملک بھر میں ہلاکت خیز جھڑپیں اور ہڑتال شروع ہوگئی تھی۔
بریڈ آڈمز نیو یارک میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی بنگلہ سروس کو بتایا کہ پھانسی کی سزا دیے جانے سے کشیدگی کی لہر کا سامنا کرنا ہوگا۔
جنگی جرائم سے متعلق ایک داخلی عدلت نے ابتدائی طور پر فروری میں مُلا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، لیکن لاکھوں سیکولر مظاہرین نے اِس سزا کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے، جن کے خیال میں یہ سزا بہت تھوڑی ہے۔
دباؤ میں آکر، حکومت نے جنگی جرائم کے قانون میں ترمیم کی، جو گذشتہ وقت سے نافذ العمل سمجھی جائے گی، تاکہ اُسے اپیل کا حق حاصل ہو اور وہ پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرسکے، جو سزا بعدازاں ستمبر میں عدالت عظمیٰ نے سنائی۔
اتوار کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے متنبہ کیا ہے کہ گذشتہ وقت سے نافذ العمل قانون کی بنیاد پر موت کی سزا دیا جانا منصفانہ بین الاقوامی مقدمات کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اِس گروپ اور اقوام متحدہ کے نمائندہ ٴخصوصی نے بھی اِس بات پر زور دیا ہے کہ مُلا کو اپیل کا موقع ملنا چاہیئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مُلا نے ملک کے صدر کو معافی کی درخواست دینے سے انکار کیا ہے، حالانکہ اُن سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں۔