|
بنگلہ دیش میں مظاہروں کا دائرہ دار الحکومت کے قریب کے صنعتی علاقوں تک پھیل جانے کے بعد، بدھ کے روز سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر ملبوسات کے اہم سیکٹر کی فیکٹریوں سمیت 80 سے زیادہ فیکٹریاں بند ہو گئیں ۔
یہ بندشیں ایک ایسے وقت میں ہوئیں جب نئی عبوری حکومت اسٹوڈنٹس کی زیر قیادت ان بڑے پیمانے کے مظاہروں کے بعد،جنہوں نے گزشتہ ماہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا تختہ الٹ دیا تھا، سرمایہ کاروں کو از سر نو یقین دہانیوں کی کوشش کر رہی ہے۔
بدھ کی صبح سینکڑوں لوگوں نے ملازمتوں اور بہتر تنخواہ کا مطالبہ کرتے ہوئے فیکٹریوں کے سامنے احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں ساور، اشولیہ اور غازی پور کے صنعتی اضلاع میں کئی دوسری فیکٹریوں کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کرنا پڑا۔
اشولیہ اور ساور میں صنعتی یونٹ کی پولیس کے ایک سینئیر آفیسر سرور عالم نے اے ایف پی کو بتایا کہ کچھ فیکٹریوں کے کارکنوں نے احتجاج کرنا شروع کیا اور دوسری فیکٹریوں کے ساتھی کارکنوں پر بھی احتجاج میں شامل ہو نے پر زور دیا۔
عالم نے کہا کہ پھر "تقریباً 80 فیکٹریوں" نے اپنے کارکنوں کو ایک دن آف کرنے کو کہا۔
یونین لیڈر تسلیمہ اختر نے کہا کہ کارکنوں کی طرف سے کیے گئے کچھ مطالبات جائز تھے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ عناصر بے اطمینانی کے موقع کا استعمال کرتے ہوئے بد امنی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
مظاہرین نے اوور ٹائم کی بہتر تنخواہ کے ساتھ ساتھ خواتین کی اکثریت والی صنعت میں مزید مردوں کو ملازم رکھنے سمیت متعدد مطالبات کئے۔
بنگلہ دیش نٹ ویئر مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد حاتم نے کہا کہ کچھ مطالبات غیر معقول تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان میں اوور ٹائم کی ادائیگیوں کو چار گنا کرنے اور فیکٹریوں میں مردوں اور خواتین کے تناسب کو مساوی کرنے کے مطالبے شامل تھے ۔
حاتم نے کہا کہ، اگر وہ صرف مطالبات لے کر آتے ہیں تو ہم میز پر بیٹھ کر ان کے بارے میں بات کر سکتے ہیں لیکن وہ اس کے بجائے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ حاتم نے مزید تفصیلات بتائے بغیر، مفاد رکھنے والے گروپس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ صنعت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ ادویات سازی ،سیرامکس اور چمڑے کی فیکٹریوں سمیت دوسری صنعتوں کے کارکنوں نے بھی مظاہرے کیے ۔
غازی پور انڈسٹریل زون کے ایک پولیس افسر عمران احمد نے کہا کہ مظاہرین نے غازی پور کے علاقے میں دو مقامات پر سڑکیں بند کر دیں اور پتھراؤ کیا ۔
بنگلہ دیش کی ملبوسات کی ساڑھے تین ہزار فیکٹریاں ملک کی 55 ارب ڈالر کی سالانہ بر آمدات میں لگ بھگ 85 فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔ لیکن پچھلے مہینے بدامنی کے نتیجے میں اس انتہائی اہم صنعت میں نمایاں خلل پڑا۔
گارمنٹس کی تجارت کے لیے سپلائی چین کو برقرار رکھنا، نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو درپیش بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے ،جنہیں 5 اگست کو حسینہ کے بھارت فرار ہونے کے بعد عبوری حکومت کی قیادت کرنے کو کہا گیا تھا۔
بنگلہ دیش چین کے بعد قیمت کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ملبوسات برآمد کرتا ہے ۔ اور لیویس ، زارا اور ایچ اینڈ ایم سمیت دنیا کے بہت سے اعلیٰ برانڈز کو سپلائی کرتا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔