بنگلہ دیش ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں نے اپنے ان سینکڑوں کارکنوں کو برطرف کر دیا ہے جنہوں نے اکتوبر میں زیادہ اجرت کے مطالبوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
پچاس لاکھ کارکنوں کی نمائندگی کرنے والی تین مزور یونینز نے خبررساں ادارے رائٹرزکو بتایا کہ بہت سے کارکن گرفتاریوں کے خوف سے ابھی تک چھپے ہوئے ہیں۔
مظاہروں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں چار کارکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے اور پولیس نےان مظاہروں کے سلسلے میں سینکڑوں نامعلوم افراد کے خلاف توڑ پھوڑ کے مقدمے درج کر کے ان کی تلاش شروع کر دی تھی۔
یہ مظاہرے ایک ایسے موقع پر ہوئے جب ملک کی حزب اختلاف کی جماعتیں بھی سڑکوں پر حکومت مخالف احتجاج کر رہی تھیں۔ بنگلہ دیش میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
گارمنٹ فیکٹریوں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی محنت کا بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔
حکومت نے مظاہروں کے بعد نومبر میں گارمنٹ فیکٹریوں کے کارکنوں کی اجرت میں 56 فی صد اضافہ کر کے ساڑھے بارہ ہزار ٹکا دینے پر اتفاق کیا تھا، جو کہ تقریباً 114 ڈالر ماہانہ کے مساوی ہے۔
کارکنوں نے اس اضافے کو بہت معمولی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش ، چین کے بعد دنیا بھر میں ریڈی میڈ ملبوسات فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور ملک کے 40 لاکھ افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹ فیکٹریوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے جو بڑے مغربی برینڈز کے لیے ملبوسات تیار کرتی ہیں۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں 150 گارمنٹس فیکٹریاں بند، 11 ہزار افراد کے خلاف مقدمہ درجتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے ملبوسات کی بڑے پیمانے پر برآمد کی ایک اہم وجہ کارکنوں کی انتہائی کم اجرت ہے جس کی وجہ سے ملبوسات بنانے کی لاگت کم ہو جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کی تین مزور یونینز، بنگلہ دیش کارمنٹس اینڈ انڈسٹریل ورکرز فیڈریشن، نیشنل گارمنٹ ورکرز فیڈریشن اور بنگلہ دیش گارمنٹس ورکرز یونٹی کونسل نے کہا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان کارکنوں کو یا تو ملازمت سے نکال دیا گیا ہے یا وہ گرفتاری کے خوف سے روپوش ہیں۔
تاہم بنگلہ دیش گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر فاروق حسین نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کارکنوں کی برطرفی کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہمارے نوٹس میں لایا گیا تو اس پر کارروائی کی جائے گی۔
SEE ALSO: ڈھاکہ کی ململ: جسے تیار کرنا ہوا میں گرہ لگانے جیسا ہےبنگلہ دیش کی وزارت محنت نے اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک اعلیٰ پولیس اہلکار مومن الاسلام نے کہا ہے کہ پولیس نے احتجاج میں شامل ہونے پر گارمنٹس فیکٹریوں کے کسی کارکن کو گرفتار نہیں کیا۔
ایک گارمنٹ فیکٹری ’دوکاٹی ایپرلز‘ کے ایک کارکن دلاور حسین نے کہا کہ انہیں اس ماہ کے شروع میں کسی وضاحت کے بغیر نکال دیا گیا تھا اور انہیں بقایاجات کی ادائیگی بھی نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کارخانے میں ان کا داخلہ روک دیا گیا ہے اور اب وہ مزدوری کر رہے ہیں۔
دوکاٹی کے مینیجنگ ڈائریکٹر خصر میا نے بتایا کہ احتجاج کے دوران 15 سے 20 کارکنوں نے فیکٹری میں توڑ پھوڑ کی تھی، لیکن ہم نے کسی کو برطرف نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری فیکٹری دس دن تک بند رہی تھی ، لیکن ہم نے کسی کی تنخواہ میں کٹوتی نہیں کی۔
(اس خبر کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)