بنگلہ دیش کی ملبوساتی فیکٹریوں کے کارکنوں کے لیے کم سے کم اجرت میں 56.25فیصد اضافہ کر دیا جائے گا جو 2019 کے بعد سے پہلا اضافہ ہے۔ یہ اعلان جونیئر لیبر منسٹرنے تنخواہوں میں اضافے کے مطالبوں پر مبنی ایک ہفتے کے مظاہروں کے بعد منگل کے روز کیا ۔
لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ منسٹر منوجن سفیان نے کہا کہ یکم دسمبر سے کارکنوں کی کم سے کم تنخواہ کو بڑھا کر 12ساڑھےبارہ ہزار ٹکہ ( 114 ڈالر) ماہانہ کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہر سال پانچ فیصد کا ااضافہ بھی ہوگا۔
ان مظاہروں کی وجہ سے، جن کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو کارکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہو ئے تھے ، حکومت کو تنخواہوں میں اضافے کے مطالبےپرغورکرنے کے لیے فیکٹری مالکان، یونین لیڈرز اور عہدے داروں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
پینل کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد سفیان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ،" وزیر اعظم شیخ حسینہ کے احکامات کے مطابق ہم گارمنٹ ورکرز کے لیے کم سے کم اجرت کا اعلان کررہے ہیں۔"
کارکنوں کی کم تنخواہوں نے بنگلہ دیش کو اپنی ملبوسات کی صنعت کو مستحکم کرنے میں مدد کی ہے۔ اس صنعت کی لگ بھگ چار ہزار فیکٹریوں کے چالیس لاکھ کارکن’ ایچ اینڈ ایم‘ اور’ گیپ‘ جیسے برانڈز کو ملبوسات فراہم کرتے ہیں ۔
بنگلہ دیش میں ریڈی میڈ ملبوسات کی صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 16 فیصد فراہم کرتا ہے۔
اجرت بورڈ میں مالکان کے نمائندے صدیق رحمان نے کہا ، اس اضافے پر تمام فریق متفق ہیں ۔
مسٹر رحمان نے جو بنگلہ دیش گارمینٹس مینیو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسو سی ایشن کے سابق صدر بھی ہیں ، رائٹر ز کو بتایا کہ کارکنوں کو سرکاری ویلفئیر کارڈز بھی فراہم کیے جائیں گے۔ بعد میں انہیں راشن کارڈز دیے جائیں گے تاکہ وہ اشیائے ضروری سستے داموں خرید سکیں۔
تاہم کارکن ایک ایسے وقت میں اس اضافے سے خوش نہیں ہیں جب افراط زر کی شرح 9.5 فیصدہے۔
ملبوسات کی فیکٹری کے ایک کارکن منا خان نے کہا ،" ایک ایسے وقت جب تمام اشیا کی قیمتیں اور کرائے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اجرتوں میں یہ اضافہ کافی نہیں ہے۔ ہم زندہ رہنے کے لیے کام کرتے ہیں لیکن ہم تو اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے۔"
اس رپوٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔