بنگلہ دیش میں پناہ گزین کی حیثیت میں داخل ہونے والے روہنگیا مسلمانوں نے کہا ہے کہ وہ یہاں پناہ گزین کے طور پر زندگی گذارنے سے تنگ آ چکے ہیں اور اپنے وطن میانمر واپس جا رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے ضلع کاکسس بازار میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے ایک راہنما محمد شاکر کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان اس وقت میانمر میں جاری نسل کشی کی صورت حال اپنی زندگیاں بچانے کے لیے عارضی طور پر بنگلہ دیش میں آئے تھے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے لیے بنگلہ دیش میں ایک پناہ گزین کی حیثیت میں رہنا بہت مشکل ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ میانمر کے علاقے راکین کے رہنے والے ہیں جہاں ہم اور ہمارے آباؤ اجداد صدیوں سے رہتے آ رہے ہیں۔ ہم اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے لیے برطانیہ میں قائم ایک تنظیم کے سرگرم کارکن نورالسلام کہتے ہیں کہ جب بھی میانمر میں روہنگیا مخالف مہم شروع ہوتی ہے، بین الاقوامی کمیونٹی کی دلچسپی اس بات میں ہوتی ہے کہ انہیں دوسرے ملکوں میں جانے کے لیے محفوظ راستہ مل جائے۔ انہوں نے بیرونی طاقتوں پر الزام لگایا کہ وہ پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں کسی قسم کی مدد نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی دنیا میں بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر تمام روہنگیا مسلمان میانمر سے چلے جائیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن یہ غلط ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کو پہلی بار بڑے پیمانے پر1978 میں نسلی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہیں معاشی مشکلات اور ظلم و زیادتی کے باعث انہیں بنگلہ دیش اور کئی دوسرے ملکوں میں جانا پڑا تھا۔
اس وقت بنگلہ دیش میں تقریبا 5 لاکھ روہنگیا موجود ہیں اور ان میں سے 90 فی صد سے زیادہ غیر قانونی پناہ گزین کے طور پر رہ رہے ہیں۔ ان کی اکثریت جنوب مشرقی بنگلہ دیش میں خستہ حال جھونپڑیوں میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔
انہیں بنگلہ دیش کی حکومت یا اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملتی ۔ ان کی اکثریت بہت معمولی سطح کے کام کرکے پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اور ان کی گذر بسر بہت مشکل سے ہوتی ہے۔
ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ان کی زندگی اجیرن ہے اور اس کے مقابلے میں وہ میانمر میں زیادہ بہتر حالات میں جی رہے تھے۔
سات ہفتے پہلے 9 پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کے بعد، جس کا الزام روہنگیا مسلمانوں پر لگایا گیا تھا، فوج نے پکڑ دھکڑ کی کارروائی شروع کی تھی۔ جس کے نتیجے میں مزید کئی ہزار روہنگیا مردوں، عورتوں اور بچوں کو بنگلہ دیش جانا پڑا تھا۔
میانمر کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ شمالی راکین میں تشدد میں اضافے اور انسانی ہمدوردی کے بحران کی تحقیقات کے لیے ایک قومی کمیٹی قائم کررہی ہے۔
میانمر میں جمہوریت کی علمبردار آن سان سوچی کو ریاست راکین کے شمالی علاقوں میں تشدد کے واقعات سے نمٹنے اور فوجی مہم پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، جس کے باعث ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑے پر مجبور ہونا پڑا۔