بنگلہ دیش کی عدالت عظمیٰ نے جنگی جرائم کی الزامات میں جماعت اسلامی کے ایک اور سینیئر رہنما میر قاسم علی کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
انھیں 2010ء میں قائم کیے گئے خصوصی ٹربیونل کی طرف سے 1971ء کی جنگ میں قتل اور تشدد کرنے کے الزام کے تحت 2014ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی جس کے خلاف انھوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔
منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سرندر کمار سنہا کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے خصوصی ٹربیونل کی طرف سے سنائی گئی سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔
63 سالہ میر قاسم جماعت اسلامی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ ان کا شمار جماعت کے چند بااثر ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں وہ بنگلہ دیش میں ایک اہم کاروباری شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں جو نشر و اشاعت کے علاوہ شعبہ صحت میں بھی کام کر رہے ہیں۔
انھیں جون 2012ء میں گرفتار کر کے خصوصی ٹربیونل میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
بنگلہ دیش دسمبر 1971ء سے قبل پاکستان کا مشرقی حصہ تھا لیکن پھر ایک جنگ کے نتیجے میں یہ ایک الگ ریاست بنا۔
وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اس جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر بنگالیوں کے خلاف کی گئی زیادتیوں کے مرتکب افراد کے خلاف خصوصی ٹربیونل بنایا تھا جو اب تک متعدد سیاسی رہنماؤں کو سزائے موت سنا چکا ہے جن میں سے چار کی سزا پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔
بنگلہ دیش میں حزب مخالف کا موقف ہے وزیراعظم خصوصی ٹربیونل کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہیں جب کہ حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی ٹربیونل کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھا چکی ہیں۔