پاکستان کے بالائی صوبے خیبر پختونخواہ کا چھو ٹا مگر آئے دن خبروں میں رہنے والا ضلع بنوں ان علاقوں میں شامل ہے جہاں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔ پولیس وین پر حملے، ہینڈ گرینیڈ کے دھماکے، گھات لگاکر فائرنگ کرنا، پولیس اور سیکورٹی فورسز سے پر تشدد جھڑپیں، دوبدو فائرنگ، راکٹ حملے، چیک پوسٹوں کو نشانہ بنانا، مسجد اور دیگر عبادت گاہوں پر دھماکے اور دیگر پرتشدد کارروائیاں اب ایک معمول بن گیا ہے۔
پچھلے تین دن اس کا واضح ثبوت ہیں۔ آج صبح ہی جانی خیل ضلع بنوں میں پولیس وین ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں اڑا دی گئی جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور5 زخمی ہوگئے ۔
گذشتہ روزبنوں میں ہی میریان پولیس اسٹیشن کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا جس میں ایف سی اور پولیس کے 12 اہلکاروں سمیت 20 افرا دجاں بحق اور15زخمی ہوگئے ۔ ضلعی پولیس سربراہ محمد افتخار کے مطابق حملے کا ہدف پولیس اسٹیشن تھاجبکہ اس کے قریب ایک مسجد بھی واقع تھی۔ دھماکے کے وقت پولیس اورپیراملٹری فورس کے اہلکار مسجد میں نماز اداکررہے تھے۔
اس سے ایک روز قبل یعنی 11جنوری کو بنوں میں اقوام میراخیل اور اس سے ملحقہ علاقے کے عوام نے بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کیخلاف مظاہرہ کیا جس میں تیزی کے بعد پولیس تشدد سے ایک نوجوان منشور علی جاں بحق اور 2خواتین سمیت 14 افرادزخمی ہوگئے۔ ہنگاموں کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
بات صرف چند دن تک محدود رہتی تو بھی بہتر ہوتا مگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو حیران کن پہلو سامنے آتے ہیں۔ وی او اے کے اس نمائندے کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق بنوں پچھلے دس سالوں سے مسلسل دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ دوہزار ایک سے آج یعنی تیرہ جنوری 2011ء تک ضلع بنوں میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں، بارودی سرنگوں یا سڑک کنارے نصب بم دھماکوں سمیت مجموعی طور پر79دھماکے ہوچکے ہیں جن میں 56بم دھماکے اور 23 خودکش حملے شامل ہیں۔
ضلع بنوں میں پہلا خود کش حملہ 2 جون 2006ء کو کیا گیاتھا۔ پھر اس کے بعد تو گویا جیسے یہ معمول ہوگیا ہو۔ 2006 سے12جنوری 2011 تک مجموعی طور پر23 خودکش حملے ہوچکے ہیں۔
ضلع بنوں ہی نشانے پر کیوں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے ضلع بنوں پچھلے دس سالوں سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یہاں کا جغرافیہ اور اس کی اہمیت پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو بات سمجھنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
بنوں شہر صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوب میں واقع ہے جس کی داغ بیل 1848میں انگریزوں نے ڈالی تھی ۔ برطانوی دور میں اسے سرحدی شہر کی حیثیت حاصل تھی۔یہاں زیادہ تر کاشتکار بسا کرتے تھے۔ کچھ صنعتیں اور کارخانے بھی قائم تھے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ ضلع میں تعلیم کا اوسط بہت زیادہ نہیں ہے مگر یونیورسٹی، کالجز اور اسکولز سب ہی قائم ہیں۔
بنوں کو اصل پہچان جس شخص نے دی وہ سابق صدر مرحوم غلام اسحاق خان ہیں۔ صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے۔ اب ایک دلچسپ بات، یہاں کی سب سے زیادہ جو چیز مشہور ہے وہ ہے نسوار!!جبکہ مصالحے اور مہندی کی بھی بہت دھوم ہے۔
بنوں ابتداء ہی سے جغرافیائی، تاریخی اورسیاسی اعتبار سے اہم تصور ہوتاآیا ہے۔جب بھی کوئی بیرونی فاتح ہندوستان یا افغانستان کے لئے نکلا یہ علاقہ اس کی گزرگاہ ضرور رہا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ یہاں زیادہ دنوں تک امن قائم نہ رہا۔ جو جو فاتح آیا اس نے اپنی مرضی سے اسے تخت و تاراج کیا۔ کسی بھی ایک فاتح کی اپنی تہذیب، اپنا تمدن یہاں تک کہ تجارت بھی مکمل طور پر پروان نہیں چڑھ پاتی تھی کہ یہاں نیا فاتح آجاتا۔ انگریز حکومت سے قبل تو یہ افغانستان کا ہی ایک صوبہ تھا ۔ گو کہ اب ایسا نہیں مگر یہاں سے گزرنے والے راستے اب بھی کابل تک جاتے ہیں۔
افغانستان کے قریب ہونے کے سبب اس علاقے کے لوگ فطری طور پر افغانستان سے متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں جیسے بھی حالات ہوں اس کا اثر بنوں پر ضرور پڑتا ہے۔ سرد جنگ میں جب افغانستان سوویت یونین کے خلاف لڑ رہا تھا تو یہاں کے لوگ بھی دل و جاں سے اس کے مخالف تھے۔ پوری سرد جنگ میں یہ علاقے اور یہ ضلع پاکستان سے افغانستان کی رسد گاہ بنا ہوا تھا۔
کم و بیش یہی صورتحال اب بھی ہے ۔ اتحادی افواج اور طالبان کی لڑائی میں، میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہاں کے باسی طالبان کے ساتھ دیتے ہیں۔ یہ سرحد کا قریبی شہر ہے اس لئے یہاں پاکستانی افواج اور سیکورٹی کی موجودگی لازم و ملزوم ہے۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ اسٹیٹ ہے اور طالبان و القاعدہ کے خلاف اس کی سیکورٹی فورسز اور فوج برسر پیکار ہے۔ یہاں کے عسکریت پسند اس امر کو پسند نہیں کرتے اور اس کا نتیجہ آئے دن ہونے والے حملے، بم دھماکے اور خود کش حملے ہیں۔
آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ سرحدسے قریب ہونے کے سبب نہ یہ شہر سیکورٹی فورسز سے خالی ہوسکتا ہے اور نہ اس وقت تک سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوسکتی جب تک افغانستان میں مکمل امن نہیں ہوجاتا۔ گویا افغانستان میں امن ان علاقوں میں قیام امن سے مشروط ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ شہر جنوبی وزیرستان کے نزدیک ترین واقع ہے اور دراصل عالمی طاقتیں انہی علاقوں کو القاعدہ اور طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں قرار دیتی ہیں۔ پاکستانی فوج جنوبی وزیرستان میں عسکری آپریشن کرچکی ہے اور یہ علاقہ عسکریت پسندوں سے خالی کرالیا گیا ہے تاہم اتحادی افواج کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے جو عسکریت پسند بچ گئے تھے انہوں نے شمالی وزیرستان میں پناہ لے لی ہے لہذا یہاں بھی آپریشن کیا جائے۔ بنوں شمالی وزیرستان کا پڑوسی ضلع ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود اور ضرورت کے مطابق کرے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا تو بنوں میں اس کا ردعمل بڑھ جائے گا۔ اور آنے والے وقت میں بنوں کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اور دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔