سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کو 10 برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اُنہیں 27 دسمبر، 2007 کو راولپنڈی میں ایک دہشت گرد حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ تاہم اُن کی میراث بدستور قائم ہے اور پاکستان میں لاکھوں کروڑوں لوگ اب بھی بے نظیر بھٹو کو اسی شدت سے یہ سوچتے ہوئے یاد کرتے ہیں کہ اگر وہ آج بھی زندہ ہوتیں تو پاکستانی سیاست کی صورت کیا ہوتی۔
جیسا کہ ہر بڑے لیڈر کے حوالے سے ہوتا ہے، بے نظیر کی موت سے پاکستانی سیاست اور قیادت میں ایک ایسا شگاف پڑ گیا ہے جو موجودہ دور کا کوئی بھی لیڈر پر نہیں کر سکا۔ لہذا سوال یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی میراث کیا ہے جو وہ پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔
وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور دونوں ہی بار اُنہیں کرپشن کے الزامات پر برخواست کر دیا گیا۔ تاہم یہ الزامات عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالتوں میں ثابت نہ کئے جا سکے۔ یوں جہاں اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اور قابلیتوں پر اُن کے مخالف بھی انگلی نہیں اُٹھا سکے، کرپشن کے الزامات بھی اُن کے ترکے میں شامل ہیں۔
اگر اُن کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اپنے تعلیمی دور میں اُنہوں نے ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسی شہرہ آفاق یونیورسٹیوں میں اعزاز کے ساتھ تعلیم مکمل کی۔ پھر سیاسی میدان میں اپنے والد اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی تربیت کے ذریعے اُن کے انتقال کے بعد بے نظیر نے جس انداز میں اپنے والد کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے عوامی سطح پر جدوجہد کی، اُس کے نتیجے میں وہ محض 35 برس کی عمر میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم بن گئیں۔
اسی دوران اُن کی شادی ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جو انتہائی متنازعہ رہے اور جنہوں نے اُن کے انتقال کے بعد اُنہی کے نام پر پاکستان کے صدر بنے اور پانچ سال تک ان کی پارٹی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے مرکز میں حکومت کی۔ بعض صحافی اور دانشور حلقے بے نظیر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں کے دوران انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کو پاکستانی سیاست سے الگ رکھیں گی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آصف علی ذرداری کو اپنے تینوں بچوں کے ساتھ دبئی چھوڑ کر اکیلی پاکستان آئیں، بعض حلقے اس کی وجہ سیکورٹی خدشات بتاتے ہیں۔ لیکن اُن کی موت کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ بے نظیر کے بچے بلاول اور دو بیٹیاں بختاور اور آصفہ اپنی نوجوانی کے دور میں پاکستانی سیاست میں اپنے لئے کوئی مقام بنانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلاول اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین چن لئے گئے تاہم اپنے والد کی موجودگی میں اُنہیں کھل کر سیاست کرنے کا موقع ابھی تک حاصل نہیں ہوا ہے۔
2008 کے انتخابات میں مرکز میں حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی کو 2013 میں سندھ کے علاوہ ملک کے باقی تینوں صوبوں، فاٹا اور گلگت بلتستان میں بدترین شکست ہوئی۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ بے بھٹو کی پارٹی اب صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
بے نظیر کی میراث میں منفی سے کہیں زیادہ مثبت چیزیں موجود ہیں۔ وہ لاکھوں لڑکیوں کیلئے اب بھی عزم، حوصلے اور بہادری کے حوالے سے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بے نظیر نے ثابت کر دیا کہ آگے بڑھنے کیلئے اگر قابلیت ہو تو جنسی تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ممتاز صحافی ڈیوڈ اِگنیٹئس، جو بے نظیر کو ذاتی طور پر جانتے تھے، کہتے ہیں کہ وہ زمانہ طالب علمی سے اپنے قتل تک انتہائی نڈر اور بے خوف رہیں۔ وہ جمہوریت، آزادی اور کھلے ذہن کی حامی تھیں۔
اُن کے قتل کو سابق امریکی صدر جارج بش نے ایک بزدلانہ اقدام قرار دیا تھا۔ ڈیوڈ اِگنیٹئس کہتے ہیں کہ بے نطیر کے قاتلوں نے اس لئے اُن کی جان لے لی کیونکہ وہ روشن خیال اور نڈر تھیں۔
لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب اُن کے قتل کے بعد اُن کے شوہر ملک کے صدر بن گئے تو اپنے پانچ سالہ اقتدار کے دوران بے نظیر کے قاتلوں کو کیوں نہ پکڑا جا سکا۔ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے ناطے آصف علی زرداری کو اس قتل کی تحقیقات کرانے کیلئے تمام تر وسائل دستیاب تھے۔ آصف علی زرداری نے البتہ اپنی پانچ سالہ صدارتی مدت میں یہ ضرور ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ میں ملک کے دیگر سیاستدانوں سے کہیں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی پانچ سالہ صدارتی مدت پوری کی بلکہ متعدد آئینی ترامیم کے ذریعے صدر کو تفویض کئے گئے اختیارات وزیر اعظم کو واپس کر دئے۔ تاہم اُن کے دور میں بھی بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات مکمل نہ ہونا اُن کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اگرچہ اقوام متحدہ کے ایک خصوصی مشن کے ذریعے اس قتل کی تحقیقات بھی کروائیں لیکن اس میں بھی کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو سکی اور نہ اس رپورٹ کی روشنی میں کوئی بڑا اقدام کیا گیا۔ حتی کہ ایک ایک کر کے اس قتل کی تحقیقات سے جڑے تقریباً سبھی اہم لوگ پراسرا طور پر قتل کر دیے گئے۔
سنہ 2007 میں بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی سے قبل وائس آف امریکہ کی براڈکاسٹر شہناز عزیز نے اُن سے ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا جس میں اُنہوں نے اُس وقت پاکستان میں موجود سیاسی صورت حال کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا۔ یہ انٹرویو سننے کیلئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5