اخبار کی اس تحقیق نے اوبامہ انتظامیہ کے ان ہلاکتوں پر ردِ عمل کے بارے میں، واشنگٹن میں پہلے سے جماعتی بنیادوں پر منقسم بحث پر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
واشنگٹن —
اخبار دی نیو یارک ٹائمز کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں، گیارہ ستمبر سن دو ہزار بارہ میں لیبیا کے شہر بن غازی میں، امریکی سفیر اور سفارتی عملے کے تین دیگر ارکان کی ہلاکت کے بارے میں نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حملے میں، القاعدہ یا کسی اور عالمی دہشت گرد گروپوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔
اخبار دی نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اس نے لیبیا کے شہر بن غازی میں، امریکی سفارتخانے پر کئے جانے والے حملے، اور اس سے منسلک حالات کا براہ ِراست علم رکھنے والے شہریوں سے بات چیت کی ہے۔
اخبار کی اس تحقیق نے اوبامہ انتظامیہ کے ان ہلاکتوں پر ردِ عمل کے بارے میں، واشنگٹن میں پہلے سے جماعتی بنیادوں پرمنقسم بحث میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کی قیادت مقامی جنگجوؤں نے کی تھی، جنہیں لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کے خلاف تحریک میں، نیٹو سے براہ راست فوائد حاصل ہوئے تھے۔ اخبار کے مطابق، اس حملے میں شدت، کسی حد تک ، امریکہ میں بننے والی اسلام مخالف اُس غیر پیشہ وارانہ ویڈیو پر اشتعال کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
یہ تحقیق، ایک سطح پر، اقوام متحدہ کیلئے اس وقت کی امریکی سفیر سوزن رائس کے بیان کی حمایت کرتی ہے، جو انہوں نے اس واقعہ کے پانچ روز بعد، ٹیلی وژن پر دیا تھا۔ سوزن رائس کا کہنا تھا کہ، ’میرے خیال میں بن غازی کے عوام، لوگوں کی ایک تھوڑی سی تعداد، سفارتخانے یا قونصل خانے اس لئے آئی تھی، تاکہ قاہرہ میں پیدا ہونے والے چیلنج کو دہرا سکیں، لیکن وہ غلط ہاتھوں میں چلا گیا، یوں کہئیے کہ چند شدت پسند افراد کے ہاتھوں میں‘۔
کانگریس کے چند ارکان نے، جن میں زیادہ تر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن ارکان ہیں، یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ واقعہ، اُس ویڈیو کے خلاف ایک اچانک رد عمل نہیں تھا، بلکہ یہ ایک منظم حملہ تھا، جس پر وائٹ ہاؤس نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
اخبار دی نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اس نے لیبیا کے شہر بن غازی میں، امریکی سفارتخانے پر کئے جانے والے حملے، اور اس سے منسلک حالات کا براہ ِراست علم رکھنے والے شہریوں سے بات چیت کی ہے۔
اخبار کی اس تحقیق نے اوبامہ انتظامیہ کے ان ہلاکتوں پر ردِ عمل کے بارے میں، واشنگٹن میں پہلے سے جماعتی بنیادوں پرمنقسم بحث میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کی قیادت مقامی جنگجوؤں نے کی تھی، جنہیں لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کے خلاف تحریک میں، نیٹو سے براہ راست فوائد حاصل ہوئے تھے۔ اخبار کے مطابق، اس حملے میں شدت، کسی حد تک ، امریکہ میں بننے والی اسلام مخالف اُس غیر پیشہ وارانہ ویڈیو پر اشتعال کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
یہ تحقیق، ایک سطح پر، اقوام متحدہ کیلئے اس وقت کی امریکی سفیر سوزن رائس کے بیان کی حمایت کرتی ہے، جو انہوں نے اس واقعہ کے پانچ روز بعد، ٹیلی وژن پر دیا تھا۔ سوزن رائس کا کہنا تھا کہ، ’میرے خیال میں بن غازی کے عوام، لوگوں کی ایک تھوڑی سی تعداد، سفارتخانے یا قونصل خانے اس لئے آئی تھی، تاکہ قاہرہ میں پیدا ہونے والے چیلنج کو دہرا سکیں، لیکن وہ غلط ہاتھوں میں چلا گیا، یوں کہئیے کہ چند شدت پسند افراد کے ہاتھوں میں‘۔
کانگریس کے چند ارکان نے، جن میں زیادہ تر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن ارکان ہیں، یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ واقعہ، اُس ویڈیو کے خلاف ایک اچانک رد عمل نہیں تھا، بلکہ یہ ایک منظم حملہ تھا، جس پر وائٹ ہاؤس نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔