اُن کا کہنا تھا کہ رائیس نے 11ستمبر کے واقعے کے بارے میں امریکی عوام کو غیر درست اطلاع دی، جس میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر امریکی ہلاک ہوئے
واشنگٹن —
تین امریکی سینیٹروں کا کہنا ہے کہ اُنھیں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے مہلک حملے کے بارے میں اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر سوزن رائیس کی طرف سے بیان کیے گئے حقائق پر تشویش ہے۔
ریبپلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاست ایریزونا کے جان مک کین، ساؤتھ کیرولینا کے لِنڈسی گراہم اور نیو ہیمپشائر کی کیلی ایوٹ نے منگل کے روز بند کمرے میں رائیس کے ساتھ منعقدہ ایک اجلاس میں کہی، جو ممکنہ طور پر آئندہ وزیر خارجہ کے عہدے کی امیدوار ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ رائیس نے 11ستمبر کے واقعے کے بارے میں امریکی عوام کو غیر درست اطلاع دی، جس میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر امریکی ہلاک ہوئے۔ ایوٹ نے کہا کہ حملے کےفوری بعد یہ بات واضح تھی کہ ملوث لوگ القاعدہ سے منسلک ہیں۔
اجلاس کےبعد ایک بیان میں رائیس نے کہا کہ اُن کا امریکی عوام کو غلط اطلاع دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ انٹیلی جنس برادری کی طرف فراہم کردہ نکات درست نہیں تھے، یوں کہ بن غازی میں حملے سےقبل کسی طرح کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا تھا۔
ہڑتال کےپانچ روز بعدرائیس نے امریکی ٹیلی ویژن پروگراموں میں بتایا تھا کہ خفیہ اداروں کے ابتدائی تخمینے کےمطابق اس مظاہرے کا باعث اسلام مخالف وڈیو تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ مظاہرے کے نتیجے میں بھاری ہتھیاروں سے لیس شدت پسند سامنے آئے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے نیت نیتی پر مبنی تخمینے کے مطابق، یہ حملہ کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوا تھا۔
امریکی انٹیلی جنس کے حکام نے بعدازاں کانگریس کو بتایا کہ رائیس کے بیان سے کچھ ہی روز قبل اوباما انتظامیہ کو پتا چل گیا تھا کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا۔
منگل کو ہونے والے اِس اجلاس میں رائیس، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کےقائم مقام ڈائریکٹر مائیکل مورل کے ہمراہ شریک ہوئیں۔
اس ہفتے سوزن رائیس قانون سازوں کے ساتھ بند کمرے کا اجلاس اس خاطر کر رہی ہیں، تاکہ وہ بن غازی حملے کے بارے میں اپنے بیان پر گفتگو کرسکیں۔ اِن اجلاسوں کو اِس نظر سے دیکھا جارہا ہے کہ وہ اگلی وزیر خارجہ بننے کے لیے کانگریس کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر براک اوباما کی دوسری میعاد کے دوران وہ وزیر خارجہ کےطور پر ہلری کلنٹن کی جگہ لیں گی۔ اگر اُنھیں نامزد کیا جاتا ہے تو عہدہ سنبھالنے سے پیشتر اُنھیں سینیٹ کی توثیق درکار ہوگی۔
ریبپلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاست ایریزونا کے جان مک کین، ساؤتھ کیرولینا کے لِنڈسی گراہم اور نیو ہیمپشائر کی کیلی ایوٹ نے منگل کے روز بند کمرے میں رائیس کے ساتھ منعقدہ ایک اجلاس میں کہی، جو ممکنہ طور پر آئندہ وزیر خارجہ کے عہدے کی امیدوار ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ رائیس نے 11ستمبر کے واقعے کے بارے میں امریکی عوام کو غیر درست اطلاع دی، جس میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر امریکی ہلاک ہوئے۔ ایوٹ نے کہا کہ حملے کےفوری بعد یہ بات واضح تھی کہ ملوث لوگ القاعدہ سے منسلک ہیں۔
اجلاس کےبعد ایک بیان میں رائیس نے کہا کہ اُن کا امریکی عوام کو غلط اطلاع دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ انٹیلی جنس برادری کی طرف فراہم کردہ نکات درست نہیں تھے، یوں کہ بن غازی میں حملے سےقبل کسی طرح کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا تھا۔
ہڑتال کےپانچ روز بعدرائیس نے امریکی ٹیلی ویژن پروگراموں میں بتایا تھا کہ خفیہ اداروں کے ابتدائی تخمینے کےمطابق اس مظاہرے کا باعث اسلام مخالف وڈیو تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ مظاہرے کے نتیجے میں بھاری ہتھیاروں سے لیس شدت پسند سامنے آئے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے نیت نیتی پر مبنی تخمینے کے مطابق، یہ حملہ کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوا تھا۔
امریکی انٹیلی جنس کے حکام نے بعدازاں کانگریس کو بتایا کہ رائیس کے بیان سے کچھ ہی روز قبل اوباما انتظامیہ کو پتا چل گیا تھا کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا۔
منگل کو ہونے والے اِس اجلاس میں رائیس، امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کےقائم مقام ڈائریکٹر مائیکل مورل کے ہمراہ شریک ہوئیں۔
اس ہفتے سوزن رائیس قانون سازوں کے ساتھ بند کمرے کا اجلاس اس خاطر کر رہی ہیں، تاکہ وہ بن غازی حملے کے بارے میں اپنے بیان پر گفتگو کرسکیں۔ اِن اجلاسوں کو اِس نظر سے دیکھا جارہا ہے کہ وہ اگلی وزیر خارجہ بننے کے لیے کانگریس کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر براک اوباما کی دوسری میعاد کے دوران وہ وزیر خارجہ کےطور پر ہلری کلنٹن کی جگہ لیں گی۔ اگر اُنھیں نامزد کیا جاتا ہے تو عہدہ سنبھالنے سے پیشتر اُنھیں سینیٹ کی توثیق درکار ہوگی۔