ایک ایسے وقت میں کہ جب وفاقی حکومت، چیف جسٹس اور پاک فوج بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے چندہ مہم چلا رہے ہیں، سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس بارے میں کچھ سوال اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ بھاشا ڈیم سیسمک زون میں ہے اور اسے بھرنے کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں۔
سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور دانشور پانی کے مسئلے پر جذباتی ہوجاتے ہیں اور دونوں کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں بہت سے دلائل ہیں۔
سینئر صحافی قاضی آصف کہتے ہیں کہ سندھ میں ڈیم سے متعلق اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ڈیم تب بنانا چاہیے جب ضرورت سے زیادہ پانی ہو۔ آپ کے پاس اتنا پانی نہیں کہ پہلے سے موجود ڈیم بھر سکیں۔ ان دنوں ڈیم بھرنے کے لیے صوبوں کا پانی روکا جارہا ہے اور سندھ میں آب پاشی کے لیے پانی نہیں مل رہا۔ دریائے سندھ کا پانی سمندر تک نہ پہنچنے کی وجہ سے سمندر اوپر چڑھا آرہا ہے اور بدین اور ٹھٹھہ کی 20 لاکھ ایکڑ اراضی نگل چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سمندر سے اپنی زمین بچانے کے لیے ہر سال کوٹری سے پچیس ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنا چاہیے۔ لیکن گزشتہ سال صرف ساڑھے سات ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑا گیا۔ دس سال میں چھ بار دس ملین ایکڑ فٹ سے کم پانی چھوڑا گیا ہے۔
پنجاب کے محکمہ انہار کے سابق سپرنٹینڈنٹ اور کالاباغ ڈیم منصوبے سے منسلک رہنے والے سینئر انجینئر، ممتاز احمد خان کا کہنا ہے کہ 2004 میں غیر ملکی ماہرین کی ایک ٹیم کو بلایا گیا تھا۔ اس نے جائزہ لے کر رپورٹ دی تھی کہ کوٹری سے نیچے صرف پانچ ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنا کافی ہے۔ سندھ میں پانی کی کمی کے دعوے درست نہیں۔ تربیلا ڈیم بننے کے بعد 40 سال اوسطاً تیس ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ سمندر میں جاکر ضائع ہوتا رہا۔
ممتاز احمد خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو شاید علم نہیں کہ بہت سے ڈیم ان علاقوں میں بنائے گئے ہیں جہاں زلزلے آتے رہتے ہیں۔ انجینئر انھیں محفوظ بناتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت یا پیپلز پارٹی ڈیم کی تعمیر کے خلاف نہیں۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کی منظوری پیپلز پارٹی حکومت ہی میں دی گئی تھی۔ لیکن چونکہ سندھ ٹیل اینڈ پر واقع ہے اس لیے یہاں پانی کی کمی کے مسائل ہیں اور وزیر اعلیٰ نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کو نئے ڈیموں کی ضرورت ہے لیکن جب نیا ڈیم بنانے کی بات کی جاتی ہے، اسے سیاسی رخ دے دیا جاتا ہے۔ پہلے کالاباغ ڈیم نہیں بن سکا اور اب بھاشا ڈیم پر اعتراضات سامنے آرہے ہیں جس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ وفاق کی مختلف اکائیوں کو ایک دوسرے پر بھروسا نہیں۔