کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جو کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی عالمی وبا اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے دونوں بڑے مسائل سے کامیابی سے نمٹ رہا ہے؟
یہ ملک نہ تو دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہے اور نہ ہی صحتِ عامہ کی جدید ترین سہولیات اور ٹیکنالوجی سے لیس۔ اور نہ ہی یہ ملک دنیا کے کرونا وائرس سے متاثرہ ملکوں سے کہیں دور دراز واقع ہے۔
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے مشرقی کنارے پر بھارت اور تبت کے درمیان واقع اس ملک کا نام ہے بھوٹان۔
اب تک بھوٹان میں کرونا وائرس سے صرف ایک موت واقع ہوئی ہے جب کہ بھوٹان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تیز رفتار ترقی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اس دور میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے کے مقابلے میں اس گیس کو زیادہ جذب کرتا ہے۔
بھوٹان میں اب تک کرونا کے صرف 863 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 855 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جب کہ اب تک صرف ایک ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے۔
امریکی میگزین 'اٹلانٹک' نے حال ہی میں بھوٹان کی اس حیرت انگیز دہری کامیابی پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔
مضمون کے مطابق سات لاکھ ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کی دیکھ بھال کے لیے بھوٹان میں صرف 338 ڈاکٹرز دستیاب تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھوٹان کے صحتِ عامہ کا عملہ تین ہزار سے کم کارکنان پر مشتمل ہے اور یہ تعداد عالمی ادارۂ صحت کے معیار سے کہیں کم ہے اور ملک کا شمار کم ترین آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ اس کی چین سے سرحد کئی عشروں سے بند ہے جب کہ کرونا وائرس سے بری طرح متاثرہ ملک بھارت کے ساتھ اس کی 435 میل طویل سرحد ہے جسے آسانی سے پار کیا جا سکتا ہے۔
تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ یہ ملک کرونا جیسی متعدی وبا سے بچ گیا اور ساتھ یہ ماحولیاتی چیلنجز سے بھی آزاد رہا؟
ان عوامل میں بروقت منصوبہ بندی، مسائل کا ادراک، ہمسائیگی کے جذبے سے معاشرے میں باہمی تعاون اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے لیے ایثار کا اظہار شامل ہیں۔
بھوٹان نے نہ صرف پیرس کلائمٹ معاہدے کو بروقت اپنایا بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ اور اسی طرح کرونا وائرس کے پھوٹنے کے بعد بھی سوچ سمجھ کر تعاون کے ذریعے قابو پا رکھا ہے۔
انہی عوامل سے اس چھوٹے سے ملک نے کرونا جیسی ہلاکت خیز وبا کا مقابلہ کیا اور یوں مسائل کے سامنے حوصلے اور منصوبہ بندی سے ڈٹ گیا۔