پاکستان کے جولائی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والا ایک خاندان ایسا بھی ہے جس میں باپ، بیٹا، بیٹی، بہن اور ’پھپو‘.... سب بیک وقت الیکشن لڑ رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ ماضی میں اسی خاندان کی ایک اور بیٹی، بیٹا، بہو، ماں، باپ اور ان کے بھی والد انتخابی دنگل میں اترتے رہے ہیں۔ یوں اگر اس خاندان سے انتخابی معرکوں اور سیاست میں حصہ لینے والوں کی مجموعی تعداد دیکھیں تو یہ ایک درجن سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
آپ پہچان ہی گئے ہوں گے کہ یہ سندھ کا بھٹو خاندان ہے۔ اس خاندان کے چار افراد آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری اور فریال تالپور آنے والے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا باہمی رشتہ باپ، بیٹا، بیٹی، بہن ‘اور پھپھو کا ہے۔
ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو اس خاندان کے دیگر چھ افراد بھی سیاست سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ یہ ہیں سر شاہنواز بھٹو، ان کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بہو نصرت بھٹو، پوتا مرتضیٰ بھٹو، پوتے کی اہلیہ غنویٰ بھٹو، پوتی بے نظیر بھٹو، ان کے شوہر آصف علی زرداری، پھر ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری، بے نظیر اور آصف زرداری کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو اور ان بچوں کی پھپھو فریال تالپور۔
آئیے ان افراد سے جڑی کچھ دلچسپ باتوں پر نظر ڈالیں:
سرشاہنواز خان بھٹو
آپ بھٹو فیملی کے سربراہ تھے جنہوں نے پاکستان بننے سے بھی پہلے سیاست میں قدم رکھا۔ سندھ کو ممبئی سے علیحدہ کرنے کی مہم میں پیش پیش رہے اور 1937ء میں ہونے والے سندھ اسمبلی کے پہلے انتخابات میں گڑھی خدا بخش سے حصہ لیا۔ لیکن شیخ عبدالمجید سندھی کے مقابلے میں مات کھا گئے۔ تاہم اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ سر شاہنواز خان نے ہی ’بھٹو فیملی‘ کو سیاست سے روشناس کرایا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو سر شاہنواز بھٹو کے بیٹے تھے جو ملک کے صدر بھی رہے اور وزیرِ اعظم بھی اور اس سے قبل وزیرِ خارجہ اور سینیٹر بھی۔ کئی اور وزارتوں کے قلم دان بھی ان کے پاس رہے۔ وہ سن 1967ء میں وجود میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی تھے۔ انہوں نے 1970ء کے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی اور ملکی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عام آدمی کو سیاست سے آگاہی بخشنے والے ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے۔
نصرت بھٹو
نصرت، ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے قید کے دنوں میں پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ان کی رہائی کے لیے بھرپور سیاسی تحریک چلائی۔ وہ 1979ء سے 1984ء تک پارٹی کی چیئرپرسن رہیں جب کہ بعد کے دنوں میں وزیرِ اعظم بننے والی اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وہ سینئر وزیر بھی رہیں۔ ان کا عہدہ نائب وزیرِ اعظم کے مساوی تھا۔
مرتضیٰ بھٹو
ذوالفقار اور نصرت بھٹو کے چار بچے تھے۔ بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو۔ بیٹیوں میں بے نظیر بھٹو اور بیٹوں میں مرتضیٰ بڑے تھے۔ مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی موت کے بعد افغانستان میں رہ کر ایک عرصے تک ضیاالحق کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھی اور ان کی موت کے بعد اپنی بہن کے دورِ حکومت میں وطن واپس آئے۔ وہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن 20 ستمبر 1996ء کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں انہیں قتل کردیا گیا۔
غنویٰ بھٹو
مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ غنویٰ بھٹو کے اپنی سسرال والوں سے اختلافات رہے ہیں جس کے سبب غنویٰ بھٹو نے اپنے شوہر کے قتل کے بعد ان کی جماعت پیپلز پارٹی (شہید بھٹو گروپ) کی قیادت سنبھالی اور انتخابات میں حصہ لیا۔ شروع شروع میں وہ سیاست میں خاصی ایکٹو نظر آئیں مگر پھر رفتہ رفتہ گمنامی کے پردے میں چلی گئیں۔
بے نظیر بھٹو
بے نظیر بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی تھیں اور انہی کی طرح عوام میں ہر دل عزیز سمجھی جاتی تھیں۔ انہوں نے والد کی زندگی میں ہی سیاسی زندگی کا آغاز کردیا تھا۔ والد کی موت کے بعد ان کی سیاسی قد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ انہوں نے کئی انتخابات لڑے اور ضیاالحق کی موت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں وہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں۔ انہیں دو مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کا موقع ملا لیکن سیاسی چپقلش کے سبب دونوں ہی بار وہ اپنے عہدے کی معیاد پوری نہ کرسکیں۔
سن 2007 میں 18 اکتوبر کو کراچی میں اور 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ان پر دہشت گرد حملے ہوئے۔ پہلے حملے میں وہ محفوظ رہیں لیکن دوسرے حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکیں۔
آصف علی زرداری
آصف زرداری نے اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ 2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ وہ چاہتے تو پارٹی سربراہ ہونے کی وجہ سے وزیرِ اعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے لیے صدر کا عہدہ منتخب کیا کیوں کہ پارلیمانی انتخابات کے بعد صدارتی انتخابات بھی قریب تھے جن کے نتیجے میں آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔
آئندہ انتخابات لڑنے کے لیے انہوں نے نواب شاہ کی نشست این اے 213 کا انتخاب کیا ہے۔ وہ 25 سال بعد الیکشن لڑیں گے۔ انہوں نے آخری مرتبہ سن 1993ء کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ تاہم وہ اس سے قبل 1985ء اور 1990ء کے انتخابات بھی لڑ چکے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے بیٹے ہیں۔ 25 جولائی کے انتخابات سے ان کی سیاست میں باقاعدہ اینٹری ہوگی۔ وہ کراچی کے علاقے لیاری سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 اور این اے 200 لاڑکانہ سے انتخابات لڑیں گے۔ لاڑکانہ کا یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔
آصفہ بھٹو
بلاول کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو بھی لاڑکانہ سے ہی انتخابات میں حصہ لیں گی جبکہ فریال تالپور ان کی متبادل امیدوار ہوں گی۔ لاڑکانہ آصفہ بھٹو کا آبائی شہر ہے اور بھٹو خاندان کے امیدوار یہاں سے ہمیشہ جیتتے رہے ہیں۔