گزشتہ ہفتے جب سر پر اسکارف اوڑھے ایک مسلمان خاتون سمیرا فاضلی نے وائٹ ہاؤس سے امریکی صدرجو بائیڈن کی اقتصادی پالیسی پر ایک پریس بریفنگ سے خطاب کیا تو نئی امریکی انتظامیہ میں مسلمانوں سمیت اقلیتی برادریوں کو نمائندگی دینے سے متعلق امریکہ ہی نہیں، دنیا بھر میں مختلف انداز سے تبصرے کیے گئے۔
دنیا اور خصوصاً مسلم اکثریتی ممالک کے لیے کشمیری نژاد سمیرا فاضلی کے خطاب کی تصویر اور ٹی وی اور انٹرنیٹ اسکرینز پر ویڈیوز بہت سے لوگوں کے لیے بجائے خود ایک تبدیلی کا اظہار تھیں۔
سمیرا فاضلی کی امریکی قومی اقتصادی کونسل میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے موجودگی اور اسی طرح ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اورانٹیریئر سیکرٹری کے کلیدی عہدوں پر اسپانوی اور دیگر کمیونٹیز سے بالترتیب تعلق رکھنے والے امریکیوں کی تقرریاں کئ حوالوں سے اہم ہیں۔ مبصرین 2016 کی الیکشن مہم کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس کے بعد، ان کے بقول، ایک ایسے بیانیے کو ہوا ملی جس میں امریکی قومی زندگی کے کثیر الثقافتی پہلو کو مبینہ طور پر نظر انداز کیا گیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پچھلے دور کی ان پالیسیوں کو اب درست کیا جارہا ہے۔
SEE ALSO: نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی معاشی ٹیم کا اعلانبعض ماہرین کہتے ہیں کہ نئی انتظامیہ میں معاشرے کے مختلف طبقوں اور خصوصاً اقلیتی برادریوں اور خواتین کی پہلے سے کہیں بڑی تعداد میں شمولیت ایک اہم اقدام ہے۔ دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ محض رنگ و نسل کا امتزاج حکومت کی مؤثر کارکردگی کی ضمانت نہیں اور اس پہلو پر زیادہ توجہ ایک سیاسی بیانیہ کا حصہ زیادہ ہے۔
تحقیقی ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوشن اور نیشنل پبلک ریڈیو کے تقابلی جائزوں کے مطابق بائیڈن کابینہ نسلی اور صنفی نمائندگی کے حوالے سے گزشتہ حکومتوں سے کہیں زیادہ متنوع ہے۔ مثال کے طور پر صدر جو بائیڈن کی کابینہ کے لیے نامزد خواتین کا تناسب 45 فی صد ہے جبکہ اس سے قبل ٹرمپ اور اوباما کی حکومتوں میں یہ تناسب بالترتیب 18 اور 36 فی صد تھا۔
اسی طرح بائیڈن کابینہ میں نامزد ہونے والے عہدیداروں میں سفید فام امریکی آبادی کی نمائندگی کے ساتھ دوسرے رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کا تناسب 55 فیصد ہے۔ جبکہ ٹرمپ اور اوباما ادوار میں یہ تناسب بالترتیب 18 اور 45 فیصد تھا۔ بائیڈن کابینہ میں امریکہ کی سفید فام اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے ممبران کا تناسب 32 فیصد ہے۔ اس کے مقابل ٹرمپ دور میں یہ تناسب 73 فیصد تھا جبکہ اوباما انتظامیہ میں سفید فام لوگوں کی کابینہ میں موجودگی 32 فیصد تھی۔
مبصرین بائیڈن انتظامیہ میں خاص طور پر عرب امریکیوں کو شامل کرنے کو خصوصی اہمیت دے رہے ہیں۔ اس وقت وائٹ ہاوس کی امور برائے قانون سازی کی ڈپٹی چیف آف دی سٹاف فلسطینی نژادخاتون ریما دودین ہیں۔ علاوہ ازیں مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے کئی دوسرے افراد کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن کی کابینہ میں ایک بے حد اہم عہدہ وزیر خزانہ کا ہے جو پہلی مرتبہ ایک خاتون جینیٹ یییلن کو دیا گیا ہے۔
امریکی آبادی میں تنوع کی اہمیت اور مختلف رنگ و نسل کے افراد کی آبادی کے لحاظ سے بائیڈن انتظامیہ میں کثیر الثقافتی ماہرین کی نمائندگی امریکی قومی زندگی اور اقلیتوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے،یہ جاننے کے لئے ہم نے ان مسائل پر کام کرنے والے ماہرین سے بات کی۔
پاکستانی امریکی عدنان بخاری واشنگٹن میں قائم نیشنل امیگریشن لا سنٹر کے چیف آپریٹو آفسر ہیں، جو ملک بھر میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے اہم مسائل پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کا اہم شعبوں میں مختلف برادریوں کے افراد کا ایک بڑے تناسب میں شامل کرنا ایک حوصلہ افزا قدم ہے۔
وہ کہتے ہیں،
"یہ بات انتہائی اہم ہے کہ صدر بائیڈن نے نہ صرف اپنی انتظامیہ میں تمام لوگوں کو نمائندگی دی ہے بلکہ ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جن سے یہ پیغام جاتا ہے کہ امریکہ تارکین وطن سمیت تمام لوگوں کا ملک ہے اور انہیں ان کے حقوق کے مطابق ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔"
اس ضمن میں بخاری خاص طور پر اس ایگزیکیٹو آرڈر کا ذکر کرتے ہیں جن سے نو مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والے افراد پر پچھلے دور میں لگائی گئی بندش دور کردی گئی ہے۔
لیکن عدنان بخاری کے مطابق ابھی امریکہ معاشرے اور قومی سطح پر تمام لوگوں کے لیے مساوی ترقی کا ماحول اور مواقع یقینی بنانے کے لیے ان علامتی اقدامات سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
نیویارک میں مقیم افغان نژاد امریکی زینب زیب مسلمانوں کے فروغ پر مرکوز مسلم امیریکن لیڈرشب الائنس یعنی MALA کی بانی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کے یہ اقدامات قابل تعریف ہیں۔ لیکن ان کے بقول، یہ تمام تر حوصلہ افزا اقدامات محض آغاز ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی معاشرے میں اب بھی سماجی ،اقتصادی، صنفی، اور ثقافتی سطحوں پر ایسا بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کے مختلف گروپس کے لئے یکساں مواقعوں حاصل کرنا ممکن ہو۔
"پرائیویٹ سیکٹر میں اقلیتی کمیونیٹیز سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور اعلی تعلیم یافتہ افراد کے لیے اب بھی یکساں مواقع اور برابری کی بنیادوں پر ترقی کا کلچر پیدا نہیں ہوا ۔۔یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اور رنگ و نسل کی بنا پر اس فرق کو دور کرنا ہوگا۔"
اس تناظر میں وہ کہتی ہیں کہ منصفانہ ماحول کے قیام کے لیے مناسب پالیسی سازی، فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔
ان کے بقول خواتین کے لئے،نائب صدر کاملا ہیرس کا انتخاب ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ "اب کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان خواتین کو سیاسی میدان میں آگے لانے کے لیے بھی کام کیا جائے اور ہم اپنی تنظیم مالا کے پلیٹ فارم سے ان کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے"۔
لیکن ریپبلکن پارٹی کے بعض حامیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ انتظامیہ کئی تقرریوں میں میرٹ کا خیال رکھتی نظر نہیں آرہی، جبکہ اعلی سطح پر عہدیداروں کی نامزدگی کرتے وقت صرف رنگ اور نسل مختلف ہونے کو ترجیح دی ہے۔
اس ضمن میں ریپبلکن پارٹی کے حامی اور مسلمز فار امیریکہ نامی تنظیم کے بانی ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ کیپیٹل ہل پر نامزدگی کی سماعتوں کے دوران کئی نامزد شخصیات کانگرس کے ممبران کو اپنے شعبے کے متعلق تسلی بخش جوابات دینے سے قاصر رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈائیورسٹی کے نام پر میرٹ پر سمجھوتا کیا جارہا ہے۔
ساجد تارڑ نے یہ بھی دعوی کیا کہ قابل افراد پر مشتمل پاکستانی امریکی کمیونیٹی کو اس کی قابلیت اور اس کے فعال کردار کے مطابق موجودہ انتظامیہ میں نمائندگی نہیں دی جارہی جبکہ بھارتی نژاد امریکیوں کو، بقول ان کے، تناسب سے بڑھ کر نمائندگی دی جارہی ہے۔
واشنگٹن ایریا میں متحرک ایشیئن امیریکن چیمبر آف کامرس کی بانی سنڈی شاو کہتی ہیں کہ کرونا بحران کے دوران امریکی حکومت میں تمام کمیونٹیز کی نمائندگی کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ تارکین وطن اور اقلیتی کمیونیٹیز کے لوگ زیادہ تر چھوٹے درجے کے کاروبار کرتے ہیں۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے کاروباروں کی بحالی اور اس بحران سے نکلنے کے لیے مالی پیکیج کا اعلان کیا ہے، ایشیائی ممالک اور دوسری برادریوں کی پالیسی اور فیصلہ ساز جگہوں پر موجودگی امریکہ کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ میں ایشیائی امریکی کمیونیٹیز کی نمائندگی ہونی چاہیے کیونکہ ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے امریکی کاروباری دنیا میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے سمیرا فاضلی کے علاوہ کئی بھارتی، پاکستانی اور عرب امریکیوں کو اپنی انتظامیہ میں شامل کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تقرریوں سے جہاں تمام امریکیوں کو مساوی مواقع مہیا کرنے کا پیغام جاتاہے، وہاں امریکی انتظامیہ بین الاقوامی امور کو سمجھنے کے لئے بھی ان ماہرین کی معلومات سے فائدہ اٹھا سکے گی۔