امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے گیارہ ستمبر تک امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ پر نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے 20 سال بعد امریکی فوج کے افغانستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں۔
دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قوم سے خطاب کے دوران صدر بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ منتشر ہو چکی ہے اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی اس طویل ترین جنگ کو انجام تک پہنچایا جائے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ میں افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی نمائندگی کرنے والا چوتھا امریکی صدر ہوں، اس سے پہلے دو ری پبلکن اور دو ڈیموکریٹک صدر افغانستان کی جنگ کے خاتمے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ اور اب یہ ذمہ داری پانچویں صدر کے پاس نہیں جانی چاہیے۔
صدر بائیڈن کے بقول، امریکہ پر دہشت گرد حملے کے بعد جب اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس کی تائید کی تھی۔ اور بعد ازاں وہ آٹھ سال کے بعد سابق صدر باراک اوباما کی ایما پر افغانستان گئے اور انہوں نے کنڑ وادی جیسے علاقوں کا دورہ کیا۔
صدر کے بقول، "میرا پہلے سے خیال پختہ ہو گیا تھا کہ افغانستان کے پائیدار سیاسی حل کے لیے افغان قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، امریکی اور اتحادی افواج میں اضافہ افغانستان میں مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکتا۔"
صدر بائیڈن نے بتایا کہ انہوں نے اتحادیوں، فوجی لیڈروں، قانون سازوں اور نائب صدر کاملا ہیرس سے مشاورت کے بعد اس سال گیارہ ستمبر کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس ضمن میں انہوں نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ بھی اپنے فیصلے پر مشاورت کی ہے۔
صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ اُن کی انتظامیہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیامِ امن سے متعلق بات چیت اور افغان فوج کی تربیت کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔
SEE ALSO: امریکہ کا 11 ستمبر تک اپنے تمام فوجی افغانستان سے نکالنے کا فیصلہانہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کو اس بات کے لیے جواب دہ ٹھہرایا جائے گا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دہشت گرد گروہ کے استعمال میں نہ آنے دینے کے وعدے کی پاسداری کریں۔
صدر جو بائیڈن نے طالبان کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران حملے کیے تو امریکہ اور اتحادی مل کر اس کا سخت اور پوری قوت سے جواب دیں گے۔
صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 20 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ امریکہ کے مفاد میں ہے، وہ بھی ایسے میں جب بن لادن کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے اور القاعدہ افغانستان میں ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے سٹیو ہرمن کی رپورٹ کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ افغانستان سے افواج کی واپسی اس وقت عالمی سطح پر درپیش ان مسائل پر نظر رکھنے کے لیے ناگزیر ہے ، جن کا سامنا امریکہ کو دو دہائیوں قبل نہیں تھا۔
SEE ALSO: افغان تنازع: استنبول کانفرنس 24 اپریل سے ہو گی، طالبان نے شرکت کے لیے شرط رکھ دیعہدیدار کا کہنا تھا کہ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ عسکری طاقت سے افغانستان کے اندرونی سیاسی چیلنجز پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور اس سے افغانستان کے اندرونی تنازعات کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا افغانستان میں فوجی آپریشنز ختم کرنے کے بعد ساری توجہ سفارتی سطح پر امن مذاکرات کی کوششوں کی حمایت پر ہو گی۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر بائیڈن کے افغانستان سے افواج کے انخلا کے منصوبے کی تصدیق کی تھی۔ ان کے کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ امریکہ، طویل عرصے سے افغانستان میں موجود ہے، اور افغان مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔
امریکہ کی سابق انتظامیہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کی حتمی تاریخ یکم مئی مقرر کی گئی تھی۔ تاہم صدر بائیڈن کے اس منصوبے کے تحت افغانستان میں موجود امریکہ کے تین ہزار فوجی اب یکم مئی کی ڈیڈ لائن کے مطابق نہیں، گیارہ ستمبر کی ڈیڈ لائن کے مطابق اپنا انخلاٗ مکمل کریں گے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے روابط نہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔