|
ویب ڈیسک — امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر اسرائیلی وزیرِ اعظم کو رفح میں زمینی کارروائی سے گریز کی وارننگ دی ہے۔
امریکی قومی سلامتی کیے مشیر جان کربی کے مطابق امریکی صدر نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے پیر کو 30 منٹ تک ٹیلی فون پر بات کی۔
امریکی صدر کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب رفح میں زمینی کارروائی سے متعلق اسرائیل اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان تفریق بڑھتی جا رہی ہے۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ رفح میں زمینی کارروائی کے باعث سویلین ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم کا مؤقف ہے کہ حماس کو کچلنے کے لیے رفح میں کارروائی ناگزیر ہے۔ رفح 10 لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان رابطہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیل رفح میں ایک بڑے فوجی آپریشن کے قریب پہنچ گیا ہے اور اسرائیل نے رفح کراسنگ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔
خیال رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 250 کے قریب کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
بائیڈن اور نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے لیے عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں اس سلسلے میں احتجاج ہو رہے ہیں جب کہ اسرائیل میں یرغمالوں کے اہلِ خانہ نیتن یاہو سے ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی جامعات میں طلبہ کا احتجاج، گرفتاریوں کی تعداد 2100 سے تجاوزخبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن رفح میں ایسے آپریشنز نہیں دیکھنا چاہتے جس سے وہاں پناہ لیے ہوئے 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو زیادہ خطرہ لاحق ہو۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے دونوں رہنماؤں کے درمیان 30 منٹ کی گفتگو کو 'تعمیری' قرار دیا گیا۔ تاہم نجی سطح پر امریکی انتظامیہ کے حکام کے درمیان تشویش بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل نے پیر کو تقریباً ایک لاکھ فلسطینیوں کو رفح سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور شہر کے مشرقی حصے میں "ٹارگٹڈ" حملے شروع کردیے تھے۔
رفح میں ممکنہ اسرائیلی کارروائی سے متعلق وائٹ ہاؤس کی سوچ سے آگاہ ایک عہدے دار نے بتایا کہ حکام باریک بینی اور فکر مندی کے ساتھ رفح میں اسرائیل کی کارروائی کا جائزہ لے رہے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدے دار نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ کارروائی اس بڑے پیمانے کا حملہ نہیں ہے جس کے بارے میں نتین یاہو خبردار کرتے آئے ہیں۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان اس ٹیلی فونک رابطے سے قبل اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو رفح سے نکلنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اس حکم کے کچھ دیر بعد ہی حماس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے جنگ بندی کے لیے مصر اور قطر کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کو حماس کے ردِعمل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ یرغمالوں کے معاہدے کو قبول کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی اے ڈائریکٹر ولیم برنس جو یرغمالوں سے متعلق بات چیت کے لیے علاقائی حکام کے ساتھ قطر میں موجود تھے، وہ حماس کے بیان پر خطے میں اتحادیوں سے بات کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: غزہ جنگ پر یونیورسٹیوں میں احتجاج میں امن و امان قائم رکھا جائے: بائیڈنالبتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حماس جنگ بندی معاہدے سے متعلق کن باتوں پر متفق ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں مصر اور حماس کے حکام کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کئی مراحل میں ہوگی جس میں حماس غزہ سے اسرائیلی فورسز کی واپسی کے بدلے یرغمالوں کو رہا کرے گی۔
حکام کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کو یہ بھی بتایا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی تک پہنچنا غزہ میں اسرائیلی یرغمالوں کی زندگیوں کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے۔
ادھر اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا جب کہ حکام نے حماس کی جانب سے منظور کردہ جنگ بندی کی تجویز پر غور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جنگی کابینہ نے متفقہ طور پر رفح میں فوجی آپریشن کی منظوری دی لیکن وہ جنگ بندی کی کوششیں جاری رکھے گی۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔