امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد روس جرمنی گیس پائپ لائن منصوبے پر پائے جانے والے اختلافات کے بارے میں سوالوں کے ایک ساتھ جواب دیے۔ اس موقع پر صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’ اچھے دوستوں کے درمیان عدم اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔'
جرمن چانسلر اینگلا مرکل اپنے 16 سالہ دورِ اقتدار میں اختتامی دورے پر امریکہ پہنچی ہیں۔ رواں برس 26 ستمبر کو جرمنی میں ہونے والے انتخابات میں مرکل ایک اور مدت کے لیے امیدوار نہیں ہوں گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اینگلا مرکل کے امریکہ کے اس دورے میں خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ ساتھ بعض اہم مسائل پر اختلافات کے بادل بھی چھائے ہوئے ہیں۔
روس کی گیس پائپ لائن اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں امریکہ اور جرمنی کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق وائٹ ہاؤس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں روس جرمنی نورڈ اسٹریم ٹو پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے امریکہ اور جرمنی کے درمیان اختلافات پر بھی بات کی گئی۔
تاہم نامہ نگاروں کے ساتھ مختصر گفتگو میں فریقین نے باہمی اختلافات پر زیادہ بات نہیں کی۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم گیس پائپ لائن منصوبے پر توجہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ امریکہ اور جرمنی کے درمیان تعاون مضبوط رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور جرمنی اس بارے میں جائزہ لیں گے کہ اگر یوکرین کی انرجی سیکیورٹی کمزور پڑتی ہے تو کیا عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، گیارہ ارب ڈالر مالیت کی نورڈ سٹریم ٹو گیس پائپ لائن پراجیکٹ مکمل ہونے کو ہے جس سے جرمنی روس سے گیس کی درآمد دوگنی کر سکے گا۔ لیکن اس میں یوکرین کو بائی پاس کیا گیا ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اور جرمن چانسلر اینگلا مرکل اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ روس کو انرجی کو اپنے پڑوسیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
جمعرات کو دو پہر کو امریکہ اور جرمنی کے چوٹی کے عہدیداروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد اینگلا مرکل نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے بارے میں ان کے صدر بائیڈن کے خیالات میں فرق ہے۔
ان کے بقول، "ہم اس کا مختلف تجزیہ رکھتے ہیں کہ اس پراجیکٹ میں کیا کچھ شامل ہے لیکن مجھے بہت واضح انداز میں کہنے دیجیے : ہمارا آئیڈیا ہے کہ قدرتی گیس یوکرین سے گزار کر لائی جائے۔"
صاف اور واضح حکمتِ عملی
مرکل اور بائیڈن کی ملاقات سے قبل امریکہ میں ہاؤس کی خارجہ امور کی کمیٹی میں شامل اہم ری پبلکن رکن مائیکل مکال نے کہا کہ انہیں امید تھی کہ صدر بائیڈن جرمن چانسلر پر زور دیں گے کہ وہ روس کے ساتھ گیس پائپ لائن پر واضح حکمتِ عملی اختیار کریں۔
یورپی برِ اعظم کی توانائی کی ضروریات کا روس پر انحصار بڑھانے کا ذریعہ بنے گا، جس سے روس کو مشرقی اور وسطی یورپی ملکوں، خصوصاً یوکرین پر سیاسی دباؤ بڑھانے کا موقع ملے گا۔
صدر بائیڈن نے حال ہی میں اس پائپ لائن پراجیکٹ سے منسلک جرمن اداروں پر عائد پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس اقدام کی امریکی کانگریس میں مخالفت کی گئی تھی۔
اینگلا مرکل نے صدر بائیڈن سے ملاقات کے بعد کہا کہ جرمنی روس پائپ لائن یوکرین کی پائپ لائن کے علاوہ ہے۔
اینگلا مرکل کے صدر بائیڈن کے پیشرو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے صدر بائیڈن سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے مزید گہرے ہونے کی منتظر ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کی صبح مرکل کے وائٹ ہاوس کے دورے کا آغاز ورکنگ بریک فاسٹ سے ہوا جس کا اہتمام امریکی نائب صدر کاملہ ہیرس نے کیا تھا اور جن کے دفتر کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان بے تکلفی سے بات چیت ہوئی۔
اینگلا مرکل نے اس موقع پر جرمنی اور بیلجیم میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "میری ہمدردیاں ان لوگوں کے عزیزوں کے ساتھ ہیں جو ہلاک ہو گئے یا لاپتا ہیں۔"
جرمنی اور اس کا ہمسایہ ملک بیلجیم اس وقت شدید سیلاب کی صورتِ حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس میں 60 سے زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں لاپتا ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: جی سیون اجلاس کے اعلامیے میں چین کا ذکر، بیجنگ کا کرونا وبا کو سیاسی رنگ دینے کا الزامجرمن وائس چانسلر کے دورۂ امریکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے برلن کے ایک تھنک ٹینک جرمن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سیکیورٹی افئیرز کے ایک سینئر فیلو جوہانس ٹم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ "ایک لحاظ سے یہ الوداعی دورہ ہے اور امریکہ اور جرمنی کے تعلقات میں تسلسل اور استحکام کا اشارہ ہے۔"
واشنگٹن اور دیگر ملکوں میں بہت سے عہدیداروں کو تجسس ہے کہ جرمنی میں اس سال ستمبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد کیا صورتِ حال پیدا ہوگی۔
جرمنی کے چین کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں اور جرمن چانسلر بظاہر اس بارے میں اجتناب کر رہی ہیں کہ ان کا ملک واشنگٹن اور بیجنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔
جرمن چانسلر نے کہا کہ چین کے ساتھ تجارت کو اس مفروضے پر ہی قائم رہنے دیا جائے کہ ہمارا میدان دونوں فریقوں کے لیے برابر ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اور جرمنی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اس وقت جمہوری اصولوں اور عالمگیر حقوق کے لیے کھڑے ہوں جب ہم دیکھیں گے کہ چین یا کوئی بھی دوسرا ملک ایک آزاد اور کشادہ سوسائٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
جاپان، جنوبی کوریا، اسرائیل اور افغانستان کے بعد مرکل پانچویں غیر ملکی اور پہلی یورپی سربراہ ہیں جنہوں نے بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے۔
سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ اختلافات:
جرمن چانسلر اینگلا مرکل کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ متعدد مسائل پر واضح اختلافات تھے۔ ان مسائل میں نیٹو کا اجتماعی سیکیورٹی معاہدہ، امیگریشن پالیسیاں اور موسمیاتی تغیر شامل ہیں۔
جمعرات کو ایک صحافی نے جرمن چانسلر سے جب سوال کیا کہ وہ صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ کا موازنہ کیسے کریں گی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مرکل نے کہا کہ کسی بھی جرمن چانسلر کا امریکہ کے کسی بھی صدر کے ساتھ مل کر کام کرنا اور ان سے بات کرنے میں مفادات ہیں اور یہ کہ صدر بائیڈن کے ساتھ مذاکرات میں بہت دوستانہ انداز میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔
(اس خبر میں بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے)