سفید گردن والا عقاب امریکہ کا قومی پرندہ بن گیا

  • صدر جو بائیڈن نے کانگریس کی جانب سے عقاب کو قومی پرندہ قرار دیے جانے والے بل پر منگل کو دستخط کر دیے ہیں۔
  • بالڈ ایگل 240 سال سے زائد عرصے سے امریکہ کی گریٹ سیل یا قومی نشان میں نمایاں رہا ہے۔
  • سفید گردن والا عقاب سرکاری دستاویزات سمیت صدارتی پرچم اور امریکی فوج سے لے کر کرنسی نوٹوں پر نمایاں رہا ہے۔
  • بالڈ ایگل کی اتنی نمایاں حیثیت کی وجہ سے کئی امریکی اسے قومی پرندہ سمجھتے تھے۔
  • بالڈ ایگل شمالی امریکہ کا مقامی پرندہ ہے۔

ویب ڈیسک — سفید گردن والا عقاب اب باضابطہ طور پر امریکہ کا قومی پرندہ بن گیا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے کانگریس کی جانب سے عقاب کو قومی پرندہ قرار دیے جانے والے بل پر منگل کو دستخط کر دیے ہیں۔

صدر بائیڈن کی منظوری کے بعد بالڈ ایگل یا گنجے عقاب کے قومی پرندہ بننے کی خبر کئی لوگوں کے لیے حیران کُن بھی تھی کیوں کہ امریکہ کے قومی نشان پر اس کی تصویر کی وجہ سے اسے قومی علامت سمجھا جاتا تھا۔

عقاب کی اقسام میں گولڈن ایگل اور بالڈ ایگل شامل ہیں۔ گولڈن عقاب بھورے رنگ کا ہوتا ہے جب کہ بالڈ عقاب کی گردن اور دم سفید ہوتی ہے جب کہ جسم بھورا اور چونچ پیلی ہوتی ہے۔

یہ پرندہ کس طرح امریکہ کی قومی علامت اور پھر قومی پرندہ بنا اس کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔

عقاب قومی علامت کیسے بنا؟

عقاب اور اس کی قبیل کے پرندوں کو قدیم روم میں بھی طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اس لیے امریکہ کی قومی علامتوں میں اس کا شامل ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی۔

جب 1776 میں امریکہ آزاد ہوا تو قومی نشان تیار کرنے کے لیے تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن کوئی کمیٹی بھی کانگریس کو مطمئن کرنے والا ڈیزائن سامنے نہیں لاسکی۔

جب سب کوششیں بے نتیجہ رہیں تو کانگریس کے سیکریٹری چارلس تھامسن نے تینوں کمیٹیوں کے مجوزہ ڈیزائن کو یکجا کرکے امریکہ کی قومی مہر بنا دی جسے گریٹ سیل بھی کہا جاتا ہے۔

سن 1782 میں جب امریکہ کے قومی نشان کے ڈیزائن کو حتمی شکل دی گئی تو اس میں عقاب، زیتون کی شاخ، تیر، امریکی پرچم، اور ابتدائی 13 ریاستوں کی نمائندگی کے لیے تیرا ستاروں کا ایک جھرمٹ اس کا حصہ بنایا گیا۔

ابتدا میں جو قومی نشان دیا گیا تھا اس میں سفید عقاب شامل کیا گیا تھا تاہم بعد میں تھامسن کی تجویز پر اسے بالڈ عقاب سے بدل دیا گیا جو کہ شمالی امریکہ کی مقامی نسل ہے۔

عقاب قوی پرندہ کیسے بنا؟

امریکی سرکاری ویب سائٹ یو ایس اے گورنمنٹ کے مطابق کانگریس نے 1782 میں ہی بالڈ ایگل کو قومی نشان کے لیے نامزد کر دیا تھا جس کے بعد سے یہ سرکاری دستاویزات سمیت صدارتی پرچم اور امریکی فوج سے لے کر کرنسی نوٹوں پر نمایاں ہے۔

قومی نشان میں شامل ہونے کے بعد عقاب امریکہ کے لیے ایک قومی علامت تو بن گیا لیکن اسے عام تاثر کے بر خلاف قومی پرندے کا درجہ اس وقت بھی حاصل نہیں تھا۔

یہی بات جب 2010 میں عقابوں سے بے پناہ محبت رکھنے والے امریکی شہری پریسٹن کک کو معلوم ہوئی تو ان کی بھی حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہا۔

کک کا تعلق امریکہ کی ریاست منی سوٹا سے ہے جو بالڈ ایگل کی آبادی کے اعتبار سے امریکہ میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔

کک نے مزید تحقیق کی خاطر خط لکھ کر کیلی فورنیا کی سینیٹر ڈیان فینسٹائن کو اس سے آگاہ کیا۔ سینیٹر نے اپنے عملے کو اس بارے میں معلومات جمع کرنے کی ہدایت دے دی۔

اس تحقیق میں کئی مسودوں کی چھان پٹھک کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ گلاب امریکہ کا قومی پرندہ، شاہ بلوط قومی درخت اور بھینسے سے مشابہ چوپایہ بائسن قومی ممالیہ ہے۔ لیکن کسی سرکاری دستاویز میں قومی پرندے کا ذکر نہیں ہے۔

اس کے بعد سے کک نے اپنے پسندیدہ پرندے عقاب کو امریکہ کا قومی پرندہ بنانے کے لیے مہم چلانے کی ٹھان لی۔

بعدازاں کک کے ساتھ منی سوٹا کے ایک ادارے نیشنل ایگل سینٹر نے بھی گنجے عقاب کو قومی پرندہ بنانے کی کوششوں میں حصہ لیا۔

ان کوششوں سے بالآخر بالڈ ایگل یا گنجے عقاب کو قومی پرندہ بنانے کا ایک بل رواں ماہ امریکی کانگریس میں لایا گیا اور 23 دسمبر 2024 کو صدر بائیڈن کی منظوری سے یہ باقاعدہ قانون بن گیا۔ اس طرح تقریباً 240 برس تک امریکہ کی علامت تصور ہونے والا عقاب قانونی طور پر اس کا قومی پرندہ بھی بن گیا۔

ہوائی کے سوا امریکہ کی سبھی ریاستوں میں بالڈ ایگل پایا جاتا ہے۔ 1940 میں منظور ہونے والے ایمبلم ایکٹ کے تحت اس پرندے کے شکار یا قید کرنے اور فروخت کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

تاہم اس قانون کی خلاف ورزی جاری رہے جب کہ کیڑے مار ادویات کی وجہ سے بھی اس کی آبادی کم ہوتی رہی۔

تاہم فیڈرل قانون سازی کے بعد عقاب کے لیے خطرے کا باعث بننے والی کیڑے مار ادویات پر پابندی کے بعد اس کی نسل نابودی سے محفوظ ہوگئی۔

سرکاری ادارے یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس کے مطابق 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں بالڈ ایگل کی مجموعی آبادی تین لاکھ 16 ہزار سے زیاد ہے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔