امریکہ کے صدر جو بائیڈن جمعے کو جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم کے ساتھ ایک ورچوئل اجلاس کی سربراہی کے دوران خطے میں چین کے اثرو رسوخ کے مقابلے سمیت دیگر علاقائی اُمور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔
امریکی انتظامیہ ٹرمپ دور میں بھی ان چار ملکوں کے اتحاد کو، جسے 'کواڈ' بھی کہا جاتا ہے فعال بنانے کے لیے کوشاں رہی ہے اور اب بائیڈن انتظامیہ بھی ان کوششوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اس چار ملکی اتحاد کو مضبوط نہیں کر سکی تھی تاہم بائیڈن انتظامیہ اسے مزید مؤثر بنانا چاہتی ہے۔ لہذٰا جمعے کا یہ اجلاس انہی کوششوں کی کڑی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے منگل کو ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ صدر بائیڈن بحرِ ہند اور بحرالکاہل میں امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔
جین ساکی کا کہنا تھا کہ ورچوئل اجلاس میں آب و ہوا کی تبدیلی، کرونا وبا سے نمٹنے جیسے اہم اور فوری نوعیت کے مسائل پر بھی بات چیت ہو گی۔
چین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور 'کواڈ ممالک' کی اہمیت
تجزیہ کاروں کے مطابق اس اتحاد کا اصل ہدف چین ہے جو تیزی کے ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر تجارت اور سیکیورٹی معاملات پر اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے جس پر نہ صرف امریکہ بلکہ بھارت سمیت اس مبینہ اتحاد کے دیگر ممالک کو بھی تشویش ہے۔
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ صدر بائیڈن اس شراکت داری کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔ اُن کے بقول یہ خطے کے ممالک کے لیے تاریخی لمحہ ہو گا جس کا مقصد بحر ہند اور بحر الکاہل کے خطوں کی خود مختاری اور سالمیت کو یقینی بنانا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت، چین تعلقات پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟
بھارتی حکام نے تصدیق کی تھی کہ اس چار ملکی اجلاس میں بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی شریک ہوں گے۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حالیہ عرصے میں چین اور بھارت کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا لامحالہ اثر دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی پڑے گا۔
تجزیہ کار اور مقتدر بھارتی انگریزی روزنامے 'ہندوستان ٹائمز' کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اس اجلاس کے ذریعے چین کو یہ پیغام جائے گا کہ بھارت اکیلا نہیں ہے۔
اُن کے بقول چین کو یہ پیغام جائے گا کہ وہ خطے میں بالادستی کا جو خواب دیکھ رہا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ امریکہ اور دیگر قوتیں بھی ہیں۔
ونود شرما کہتے ہیں کہ چین نے ایک ہی وقت میں کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ لہذٰا یہ چار ملکی اتحاد اور اس کا ہونے والا اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اُن کے بقول چین نے حالیہ عرصے میں کچھ مثبت اشارے دیے ہیں۔ تاہم اسے یہ ادراک کرنا ہو گا کہ جارحیت اور تجارت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ خیال رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سفارتی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط قائم ہیں۔
ونود شرما کہتے ہیں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ چین بھارت کا اہم ہمسایہ ہے اور اس کے ساتھ بھارت کے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر چین بھی تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہو۔
البتہ، بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارت اور چین کے تعلقات دو طرفہ مذاکرات سے ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ لہذٰا اس کے لیے کسی تیسرے ملک یا چار ملکوں کی گروپنگ کوئی زیادہ معنی نہیں رکھتی۔
بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے سابق سربراہ اے ایس دلت اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جغرافیائی لحاظ سے امریکہ بھارت سے بہت دُور ہے۔ تاہم چین اور پاکستان، بھارت کے ہمسایے ہیں۔
اے ایس دلت کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت خطے میں اس کی پراکسی وار لڑے، تاہم بھارت ماضی میں کسی ملک کا آلۂ کار نہیں بنا اور نہ ہی اب بن سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عراق جنگ کی مثال دیتے ہوئے سابق را چیف نے کہا کہ امریکہ نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ عراق جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن جائے۔ لیکن اُس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے انکار کر دیا تھا۔
اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن ایران اور چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ لہذٰا وہ اس مقصد کے لیے مختلف حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔
اُن کے بقول امریکہ افغانستان تنازع کے حل کے لیے بھی سنجیدہ ہے اور اس کی حالیہ کوششوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے کتنا بے چین ہے۔
'کواڈ' کی خطے کے لیے دفاعی اہمیت کیا ہے؟
کواڈ میں بھارت کی شمولیت دفاعی نکتۂ نظر سے کتنی اہم ہے اس استفسار پر دفاعی امور کے ماہر اور سرکردہ صحافی اجے شکلا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جو بائیڈن بھارت کے بارے میں خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔
اُن کے بقول کواڈ میں شامل ممالک کے سربراہانِ حکومت کے ساتھ ان کا مجوزہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اجے شکلا کہتے ہیں کہ لداخ میں پیدا شدہ صورتِ حال اور اس جیسے دو طرفہ معاملات میں کواڈ ممالک کا کوئی خاص کردار نہیں بنتا۔ اس اجلاس میں صرف اُن اُمور پر بات ہو گی جن میں سبھی رُکن ممالک کو یکساں دلچسپی ہو۔
اُن کے بقول یہ اُمید کرنا کہ چاروں ممالک بھارت کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میں چین کے خلاف کوئی مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں گے تو ایسا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
کواڈ کی پاکستان کے لیے کیا اہمیت ہے؟
'کواڈ' اجلاس کی پاکستان کے لیے کیا اہمیت ہے اس بارے میں بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط نے بتایا کہ اسے عالمی زاویے سے دیکھا جانا چاہیے۔
اُن کے بقول کواڈ کا بنیادی مقصد چین کا اثرو رُسوخ کم کرنا ہے۔ لہذٰا پاکستان چوں کہ چین کا قریبی دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے اس لیے اس سے پاکستان بھی متاثر ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر ماضی کی طرز پر ان ممالک نے سرد جنگ شروع کر دی تو اس سے خطے میں تناؤ مزید بڑھے گا۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ چار ملکی اتحاد چین، پاکستان اقتصادی راہداری پر تو اثرانداز نہیں ہو گا۔
اُن کے بقول "مجھے لگتا ہے کہ یہ سی پیک پر بھی اثرانداز ہو گا کہ کیوں کہ چینی صدر شی کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر امریکہ اور بھارت کو تحفظات ہیں اور سی پیک اس کا بنیادی جزو ہے۔"