ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل حماس تنازعہ نہ صرف خطے کو عدم استحکام کی جانب لے جارہا ہے ، بلکہ صرف عرب ملکوں میں ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی اس تنازعے کے فریقوں کی حما یت یا مخالفت میں مظاہرے جاری ہیں،صدر بائیڈن نے جمعرات کی شب ’اوول آفس‘ سے قوم سے خطاب کیا ہے۔
اے ایف پی نے خطاب سے قبل اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ جو بائیڈن اپنی اس تقریر میں امریکیوں پر زور دیں گےکہ وہ ایک ایسے وقت میں اسرائیل اور یوکرین کی حمایت کریں جو بقول ان کے دنیا بھر میں جمہوریت کے لیے ایک خطرناک لمحہ ہے۔
"اسرائیل کے خلاف حماس کے دہشت گردحملے،غزہ میں انسانی امداد کی ضرورت، یوکرین کے خلاف روس کی جاری وحشیانہ جنگ۔ ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں جو پارٹی یا سیاست سے بالاترہے،" بائیڈن نے تقریر سے پہلے، X پر پوسٹ کیاتھا۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے MSNBC کو بتایاتھا کہ بائیڈن "امریکی عوام کو ایک پیغام دیں گے کہ یہ تنازعات یہاں ہماری زندگیوں سے کیسے جڑے ہوئے ہیں۔"
اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کے دورے سےابھی ابھی واپس لوٹنےوالے ڈیموکریٹک صدر کا پرائم ٹائم خطاب, جنگ سے عاجز امریکی ووٹروں اور تنہائی پسند ریپبلکنز کے لیے امریکہ کے کسی عالمی کردار کی راہ ہموار کرے گا۔
صدر بائیڈن، جو 2024 میں دوسری مدت کے لیے انتخاب کی کوشش کر رہے ہیں، امریکی کانگریس سے 100 ارب ڈالر کے اس بڑے مشترکہ پیکج کا مطالبہ کرنے کی تیاری کر رہےہیں جس میں اسرائیل کی فنڈنگ، اور یوکرین کی روس کے حملے کے خلاف جنگ کے لیے فنڈنگ شامل ہے۔
تاہم جمعرات کوان کی تقریر، ووٹروں کے سامنے اس بارے میں ایک وسیع تصویر پیش کرنے کے بارے میں زیادہ تھی کہ سمندر پار اپنےاتحادیوں کا دفاع کرنا خود امریکہ کے لیے کتنا ضروری ہے۔
امریکی کانگریس اس وقت دو ہفتے سے زیادہ عرصے سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ منقسم ، ریپبلکن ایوان کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں یوکرین کے لیے امداد روک دی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بائیڈن نے تقریر سے چند گھنٹے قبل یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بات کی تھی جو بظاہر ریپبلکنز پر دباؤ بڑھانے کے مقصد سے تھی۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے اس سے قبل ٹیلی وژن نیٹ ورک MSNBC کو بتایا تھاکہ آپ صدر کو ہماری قومی سلامتی اور بین الاقوامی استحکام کے حوالے سے،"اس خطرناک لمحے کی وضاحت کرتے ہوئے سنیں گے جس میں ہم عالمی سطح پر ہیں۔"
اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کے دورے سےابھی ابھی واپس لوٹنےوالے ڈیموکریٹک صدر کا پرائم ٹائم خطاب, جنگ سے عاجز امریکی ووٹروں اور تنہائی پسند ریپبلکنز کے لیے امریکہ کے کسی عالمی کردار کی راہ ہموار کرے گا۔
صدر کو امید ہے کہ ان کے اسرائیل کے سفر کی امریکی میڈیا کی جانب سے مثبت کوریج ان کے لیے معاون ثابت ہوگی۔
بائیڈن جب واشنگٹن سے اسرائیل روانہ ہونے والے تھے تو انہوں نے اس پر خاصا سوچ و بچار کیا تھا کہ کہ آیا غزہ کے ایک ہسپتال پر مہلک حملے کےنتیجے میں اردن اور مصر کی طرف سے سربراہی مذاکرات منسوخ کرنے کے بعد ،اس سفر کو جاری رکھا جائے یا نہیں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر بائیڈن نے ایئر فورس ون میں سوار نامہ نگاروں کو بتایا، "اگریہ ناکام ہو جاتا، تو آپ جانتے ہیں (سمجھا جاتا کہ) ،" امریکہ ناکام ہو گیا، بائیڈن کی صدارت ناکام ہو گئی۔(لیکن) " میں نے سوچا کہ یہ موقع چانس لینے کے قابل ہے۔"
مصر کے صدر نے بعد میں غزہ کی امداد کے لیے اسرائیل کے لیے رفح بارڈر کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا۔
بائیڈن کو اب زیادہ سخت امتحان کا سامنا ہے کیونکہ ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی میں بائیں بازو کے افراد نے بھی اسرائیل کی حمایت کرنے کی مخالفت کی ہے۔
دوسری طرف یہ خدشات بھی ہیں کہ یہ جنگ دوسرے ملکوں تک پھیل سکتی ہے، خاص طور سے لبنان میں جس کی اسرائیل سے ملحق سرحد ہے اور جہاں حزب اللہ ایک طاقتور سیاسی اور عسکری تنظیم ہے
وسیع تر تصادم کے خطرہ کی وجہ سے امریکہ پہلے ہی دو طیارہ بردار بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم میں منتقل کر چکا ہے تاکہ حماس کے اتحادیو ں ایران یا لبنان کے حزب اللہ دونوں کو ملوث ہونے سے روکا جا سکے۔
پینٹاگون نے کہا کہ جمعرات کو امریکی بحریہ کے ایک جہاز نے میزائل اور ڈرون کو مار گرایا جو ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے یمن میں ممکنہ طور پر اسرائیل پر فائر کیے تھے۔