مین ہٹن کی فیڈرل جیوری نے سلیمان ابو غیاث کو امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی سازش تیار کرنے اورالقاعدہ کے حق میں لٹریچر پھیلانے کا مجرم قرار دیا۔
القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کے داماد سلیمان ابوغیاث کو 11ستمبر2001 کے بعد القاعدہ کے لئے نئے ارکان بھرتی کرنے ، اشتعال انگیزتقریریں کرنے اور القاعدہ کے ترجمان کے فرائض انجام دینے کا مجرم قرار دے دیا گیا ۔
ویب سائٹ’ بلوم برگ‘ کے مطابق مین ہٹن کی فیڈرل جیوری نے سلیمان ابو غیاث کو امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی سازش تیار کرنے اورالقاعدہ کے حق میں لٹریچر پھیلانے کا مجرم قرار دیا۔
امریکی شہریوں کے قتل کی سازش کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے۔ ابوغیاث کے خلاف مقدمے کی سماعت تین ہفتوں تک کی گئی۔
ابوغیاث کے خلاف چلنے والا مقدمہ نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ کے کسی بھی سینئر لیڈر کے خلاف امریکی سول کورٹ میں چلنے والا پہلا مقدمہ ہے اور نیویارک میں دہشت گردی کے حوالے سے انتہائی ہائی پروفائل مقدمہ بھی۔
سال 2011 میں اوباما انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ خالد شیخ محمد کا مقدمہ سول کورٹ میں نہیں چلایا جائے گابلکہ اسے کیوبا کے جیل خانے’ گونتاناموبے ‘میں چلانے کا حکم دیا تھا۔
القاعدہ کا ترجمان
پروسیکیوٹرز نے القاعدہ کے ترجمان کے طو رپر ابوغیاث کو القاعدہ کا اہم اور کلیدی رکن قرار دیا۔ حکومت کا یہ بھی موقف تھا کہ ابوغیاث کو دہشت گرد منصوبوں کا پہلے سے علم تھا اور اس میں مسافر طیاروں کو ’شو بم‘ سے اڑانے کی سازش بھی شامل تھی۔
کویت سے تعلق رکھنے والے ابوغیاث نے اپنا دفاع کرتے ہوئے اس بات سے انکا ر کیا کہ دہشت گردوارداتوں کی منصوبہ بندی میں اس کا کوئی کردار تھا۔ ابوغیاث نے اس بات پر اصرار کیا کہ سن دوہزار ایک میں اسامہ بن لادن کی درخواست پر انہوں نے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپ کے لئے بھرتی ہونے والوں کو لیکچر دیتے ہوئے رحم دلی کی تلقین کی۔ ان کے وکیل کا دعوی ہے کہ حکومت کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ابوغیاث 11ستمبر کے دہشت گرد حملوں کی پلاننگ یا شو بم منصوبے میں شریک تھے۔
ٹریننگ کیمپس
ابوغیاث کے مقدمے میں ان افراد سے بھی جرح کی گئی جن کو افغانستان میں القاعدہ کے کیمپوں میں ٹریننگ دی گئی اور جو 2001کی دہشت گرد کارروائیوں سے پہلے اور بعدمیں اسامہ بن لادن سمیت القاعد ہ کے اہم رہنماوٴں سے مل چکے تھے۔جیوررز کو ایسی ریکاڈنگز اور وڈیو ٹیپس بھی پیش کی گئیں جن میں ابوغیاث امریکا کو مزید حملوں کی دھمکی دے رہے تھے۔
ذمہ داری قبول کرنا
جیوری کو ایک ایسی وڈیودکھائی گئی جو 12ستمبر 2001کو بنائی گئی تھی اور جس میں ابوغیاث اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، بن لادن کے نائب اور القاعدہ کے ملٹری آپریشنز حفصہ المصری کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی ویڈیو ہے جس میں اسامہ بن لادن نے حملوں کی ذمہ قبو ل کی تھی۔اس وڈیو میں ابوغیاث امریکیوں کو دھمکی دیتے ہوئے خبردار کررہے ہیں کہ وہ مزید حملوں کے لئے تیار رہیں۔
اکتوبر 2001 کی ایک وڈیو میں ابوغیاث یہ وعدہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ’طیاروں کا طوفان‘ جاری رہے گا۔القاعدہ اپنے وعدے پورے کرتی ہے۔‘
تیسری ویڈیو میں ابوغیاث 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کا حوالے دیتے ہوئے اسے تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ان حملوں نے امریکیوں کی کمر توڑ دی۔
غلط شناخت
ٓابتدا میں ابوغیث کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ یہ غلط شناخت کا کیس ہے کیونکہ امریکا کو جو شخص مطلوب ہے وہ گونتاناموبے کی جیل میں قید ہے۔یہ دعویٰ حکومتی وکیل او رجیوری دونوں نے مسترد کردیا۔ ابوغیث کی جانب سے خالد شیخ محمد کو گواہی کے لئے طلب کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی گئی۔
اپنے بیان میں ابوغیاث نے کہا کہ 2001میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ کویت سے افغانستان منتقل ہوگئے تھے ۔ بیوی ، بچوں کے واپس جانے کے بعد اسامہ بن لادن کی درخواست پر القاعدہ کے کیمپ میں نئے آنے والوں کو ٹریننگ فراہم کی۔انہوں نے بتایا کہ ٹریننگ کیمپ کی زندگی بہت سخت تھی۔ ٹریننگ ، ہتھیا ر ، سختی ۔۔ یہ سب ٹریننگ کیمپ کا حصہ تھے۔
ٓ
اسامہ بن لادن کے داماد سلیمان ابو غیث نے الزام عاید کیا ہے کہ نائن الیون کے ایک دہائی بعد اس کی گرفتاری ایران اور امریکی حکام کی سازش کا نتیجہ ہے۔
ابوغیاث نے امریکی عدالت میں دائر کردہ اپنی درخواست میں اپنی گرفتاری کے بعد طیارے میں امریکی اہلکاروں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کا حوالہ دیا اور کہا کہ خود امریکیوں نے اس پر تشدد کیا ہے جبکہ اس پر تشدد کا الزام بلا جواز ہے اس لیے اس کے خلاف دائر کیا گیا مقدمہ ختم کیا جائے۔
47 سالہ کویتی شہری سلیمان ابوغیاث جس پر امریکیوں کے قتل کی سازش کا الزام ہے،اسے فروری میں اردن سے گرفتاری کے بعد امریکہ لایا گیا تھا۔ امریکی ماہرین کے مطابق قیدی ابوغیاث کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کی بنیاد پر دہشت گردی کی جنگ میں امریکی کردار زیر بحث آئے گا۔
دوسری جانب امریکی پراسیکیوٹر نے مقدمے کے خاتمے کی اس درخواست پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بلوم برگ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی عدالت اسامہ بن لادن کے داماد کی درخواست پر دو ہفتے تک سماعت کا فیصلہ کرنے یا سماعت کی تاریخ دینے کی پابند ہے جبکہ امریکہ کے سرکاری پراسیکیوٹر کو اس بارے میں تین ہفتوں میں اپنا موقف سامنے لانا ہو گا۔
مارچ میں ابوغیاث پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جس کے بعد ری پبلکن کی معروف شخصیات نے عدالت میں ابوغیاث کے خلاف درخواست کی تھی کہ اسے ایک جنگجو دشمن قرار دے کر گوانتانامو بے میں بند کیا جائے۔
واضح رہے کہ ابو غیاث سے منسوب تقریر کے ان الفاظ ''طوفان رکے گا نہیں، خصوصا جہازوں والا طوفان'' کو امریکی حکومت نے اس پر الزام کی بنیاد بنایا ہے۔ ابو غیاث کو سزا دلوانے کے لیے عدالت میں سرگرم وکلا کا کہنا ہے کہ اسے مجرم ثابت کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی تعلق ہونا ہی کافی ہے۔
ابو غیاث پر عائد کیے گئے الزام کے تحت اسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جبکہ ابو غیاث کے وکلا کا موقف ہے کہ اس طرح کا بیان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ابو غیاث امیریکیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہے۔
ابوغیث کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مین ہٹن کی ضلعی عدالت میں مقدمہ ختم کرنے کے مطالبے کے علاوہ یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
ویب سائٹ’ بلوم برگ‘ کے مطابق مین ہٹن کی فیڈرل جیوری نے سلیمان ابو غیاث کو امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی سازش تیار کرنے اورالقاعدہ کے حق میں لٹریچر پھیلانے کا مجرم قرار دیا۔
امریکی شہریوں کے قتل کی سازش کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے۔ ابوغیاث کے خلاف مقدمے کی سماعت تین ہفتوں تک کی گئی۔
ابوغیاث کے خلاف چلنے والا مقدمہ نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ کے کسی بھی سینئر لیڈر کے خلاف امریکی سول کورٹ میں چلنے والا پہلا مقدمہ ہے اور نیویارک میں دہشت گردی کے حوالے سے انتہائی ہائی پروفائل مقدمہ بھی۔
سال 2011 میں اوباما انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ خالد شیخ محمد کا مقدمہ سول کورٹ میں نہیں چلایا جائے گابلکہ اسے کیوبا کے جیل خانے’ گونتاناموبے ‘میں چلانے کا حکم دیا تھا۔
القاعدہ کا ترجمان
پروسیکیوٹرز نے القاعدہ کے ترجمان کے طو رپر ابوغیاث کو القاعدہ کا اہم اور کلیدی رکن قرار دیا۔ حکومت کا یہ بھی موقف تھا کہ ابوغیاث کو دہشت گرد منصوبوں کا پہلے سے علم تھا اور اس میں مسافر طیاروں کو ’شو بم‘ سے اڑانے کی سازش بھی شامل تھی۔
کویت سے تعلق رکھنے والے ابوغیاث نے اپنا دفاع کرتے ہوئے اس بات سے انکا ر کیا کہ دہشت گردوارداتوں کی منصوبہ بندی میں اس کا کوئی کردار تھا۔ ابوغیاث نے اس بات پر اصرار کیا کہ سن دوہزار ایک میں اسامہ بن لادن کی درخواست پر انہوں نے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپ کے لئے بھرتی ہونے والوں کو لیکچر دیتے ہوئے رحم دلی کی تلقین کی۔ ان کے وکیل کا دعوی ہے کہ حکومت کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ابوغیاث 11ستمبر کے دہشت گرد حملوں کی پلاننگ یا شو بم منصوبے میں شریک تھے۔
ٹریننگ کیمپس
ابوغیاث کے مقدمے میں ان افراد سے بھی جرح کی گئی جن کو افغانستان میں القاعدہ کے کیمپوں میں ٹریننگ دی گئی اور جو 2001کی دہشت گرد کارروائیوں سے پہلے اور بعدمیں اسامہ بن لادن سمیت القاعد ہ کے اہم رہنماوٴں سے مل چکے تھے۔جیوررز کو ایسی ریکاڈنگز اور وڈیو ٹیپس بھی پیش کی گئیں جن میں ابوغیاث امریکا کو مزید حملوں کی دھمکی دے رہے تھے۔
ذمہ داری قبول کرنا
جیوری کو ایک ایسی وڈیودکھائی گئی جو 12ستمبر 2001کو بنائی گئی تھی اور جس میں ابوغیاث اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، بن لادن کے نائب اور القاعدہ کے ملٹری آپریشنز حفصہ المصری کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی ویڈیو ہے جس میں اسامہ بن لادن نے حملوں کی ذمہ قبو ل کی تھی۔اس وڈیو میں ابوغیاث امریکیوں کو دھمکی دیتے ہوئے خبردار کررہے ہیں کہ وہ مزید حملوں کے لئے تیار رہیں۔
اکتوبر 2001 کی ایک وڈیو میں ابوغیاث یہ وعدہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ’طیاروں کا طوفان‘ جاری رہے گا۔القاعدہ اپنے وعدے پورے کرتی ہے۔‘
تیسری ویڈیو میں ابوغیاث 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کا حوالے دیتے ہوئے اسے تاریخی کامیابی قراردیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ان حملوں نے امریکیوں کی کمر توڑ دی۔
غلط شناخت
ٓابتدا میں ابوغیث کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ یہ غلط شناخت کا کیس ہے کیونکہ امریکا کو جو شخص مطلوب ہے وہ گونتاناموبے کی جیل میں قید ہے۔یہ دعویٰ حکومتی وکیل او رجیوری دونوں نے مسترد کردیا۔ ابوغیث کی جانب سے خالد شیخ محمد کو گواہی کے لئے طلب کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی گئی۔
اپنے بیان میں ابوغیاث نے کہا کہ 2001میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ کویت سے افغانستان منتقل ہوگئے تھے ۔ بیوی ، بچوں کے واپس جانے کے بعد اسامہ بن لادن کی درخواست پر القاعدہ کے کیمپ میں نئے آنے والوں کو ٹریننگ فراہم کی۔انہوں نے بتایا کہ ٹریننگ کیمپ کی زندگی بہت سخت تھی۔ ٹریننگ ، ہتھیا ر ، سختی ۔۔ یہ سب ٹریننگ کیمپ کا حصہ تھے۔
ٓ
اسامہ بن لادن کے داماد سلیمان ابو غیث نے الزام عاید کیا ہے کہ نائن الیون کے ایک دہائی بعد اس کی گرفتاری ایران اور امریکی حکام کی سازش کا نتیجہ ہے۔
ابوغیاث نے امریکی عدالت میں دائر کردہ اپنی درخواست میں اپنی گرفتاری کے بعد طیارے میں امریکی اہلکاروں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کا حوالہ دیا اور کہا کہ خود امریکیوں نے اس پر تشدد کیا ہے جبکہ اس پر تشدد کا الزام بلا جواز ہے اس لیے اس کے خلاف دائر کیا گیا مقدمہ ختم کیا جائے۔
47 سالہ کویتی شہری سلیمان ابوغیاث جس پر امریکیوں کے قتل کی سازش کا الزام ہے،اسے فروری میں اردن سے گرفتاری کے بعد امریکہ لایا گیا تھا۔ امریکی ماہرین کے مطابق قیدی ابوغیاث کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کی بنیاد پر دہشت گردی کی جنگ میں امریکی کردار زیر بحث آئے گا۔
دوسری جانب امریکی پراسیکیوٹر نے مقدمے کے خاتمے کی اس درخواست پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بلوم برگ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی عدالت اسامہ بن لادن کے داماد کی درخواست پر دو ہفتے تک سماعت کا فیصلہ کرنے یا سماعت کی تاریخ دینے کی پابند ہے جبکہ امریکہ کے سرکاری پراسیکیوٹر کو اس بارے میں تین ہفتوں میں اپنا موقف سامنے لانا ہو گا۔
مارچ میں ابوغیاث پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جس کے بعد ری پبلکن کی معروف شخصیات نے عدالت میں ابوغیاث کے خلاف درخواست کی تھی کہ اسے ایک جنگجو دشمن قرار دے کر گوانتانامو بے میں بند کیا جائے۔
واضح رہے کہ ابو غیاث سے منسوب تقریر کے ان الفاظ ''طوفان رکے گا نہیں، خصوصا جہازوں والا طوفان'' کو امریکی حکومت نے اس پر الزام کی بنیاد بنایا ہے۔ ابو غیاث کو سزا دلوانے کے لیے عدالت میں سرگرم وکلا کا کہنا ہے کہ اسے مجرم ثابت کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی تعلق ہونا ہی کافی ہے۔
ابو غیاث پر عائد کیے گئے الزام کے تحت اسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جبکہ ابو غیاث کے وکلا کا موقف ہے کہ اس طرح کا بیان یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ابو غیاث امیریکیوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہے۔
ابوغیث کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مین ہٹن کی ضلعی عدالت میں مقدمہ ختم کرنے کے مطالبے کے علاوہ یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔