سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ساحلی علاقوں میں موسم کی صورتِ حال پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے جب کہ ماہی گیروں کو گہرے سمندر میں نہ جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
شرجیل میمن کا اتوار کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ ساحلی اضلاع کی انتظامیہ مکمل طور پر الرٹ ہےجب کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے سرکاری ملازمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اضلاع سے باہر نہ جائیں۔
بحیرہ عرب میں موجود انتہائی سمندری طوفان ‘بپرجائے’ مزید شدت اختیار کر گیا ہے اور اس وقت کراچی کے جنوب سے لگ بھگ 760 کلو میٹر جب کہ ٹھٹھہ کے جنوب سے 740 کلو میٹر اور اوماڑہ کے جنوب مشرق سے 840 کلو میٹر دور موجود ہے۔
ملک میں قدرتی آفات پر نظر رکھنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے لوگوں کو سمندری طوفان کی وجہ سے ساحل سمندر سے دور رہنے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کی صورت میں مقامی حکام کی ہدایات پر عمل کرنے کی اپیل کی ہے۔
محکمۂ موسمیات کا مزید کہنا ہے کہ طوفان 14 جون کو شمال مشرق کی جانب مڑ کر کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے ساحل کے درمیان سے ساحل سے ٹکرا سکتا ہے جب کہ اتوار اور پیر کی سہ پہر ملک کے وسطی اور جنوبی اضلاع میں آندھی اور تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔
علاوہ ازیں محکمۂ موسمیات نے پیسیفک ڈیزاسٹر سینٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لگ بھگ 13 لاکھ 80 ہزار افراد کو اس طوفان کی زد میں ہیں۔
محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ بپرجائے کی شدت زیادہ ہے جسے کیٹیگری ٹو کی شدت کا قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سائیکلون کے گرد 130 سے 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں اور ایسا طوفان کافی شدت کا ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ بپر جائے سائیکلون 6 جون کو بنا تھا۔ بحیرۂ عرب اور خلیج بنگال میں مئی اور جون میں ایسے سائیکلون کا بننا عام بات ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایسے سائیکلون مون سون شروع ہونے سے قبل بنتے رہتے ہیں اور پھر مون سون ختم ہونے کے بعد اکتوبر اور نومبر میں بھی ان کا وجود عمل میں آجاتا ہے۔
صوبۂ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے کمشنر نے شہریوں کے ساحل سمندر پر جانے، مچھلی پکڑنے، کشتی رانی، تیراکی اور سمندر میں نہانے پر طوفان کے خاتمے تک کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پابندی عائد کر دی ہے۔
پاکستان کے ساحل سے کتنے طوفان ٹکرائے؟
ڈھائی دہائی قبل 1999 میں سب سے تباہ کن طوفان جسے زیرو ٹو اے آیا تھا جو ٹھٹھہ، بدین کے ساحل سے ٹکرایا تھا۔
اس طوفان کے نتیجے میں کئی ہزار لوگ دربدر اور ماہی گیر لاپتا ہوگئے تھے۔
پاکستان کے ساحل کے قریب سے گزرنے والا ایک طوفان 2001 میں آیا تھا جس کے پیشِ نظر سات روز تک ساحلوں کو ہائی الرٹ رکھا گیا اور پھر اس طوفان کا رخ بھارتی گجرات کی جانب مڑ گیا۔
اسی طرح 2007 میں 'یمینن' نامی طوفان پسنی اور اوڑمارہ کے ساحلوں سے ٹکرایا تھا جب کہ کراچی میں بھی طوفان کے باعث مختلف حادثات میں 200 سے زائد اموات ہوئی تھیں۔
سال 2010 میں 'پھیٹ' نامی طوفان عمان سے ٹکرایا تھااور پھر اس کا رخ گوادر کی جانب مڑاجس نے تین سو ملی میٹر سے زائد بارش برسادی تھی۔
یہ طوفان کراچی او ر کیٹی بندر کے ساحل سے گزرا تھا تب وہ طوفان ایک ڈپریشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔
اسی طرح2014 میں 'نیلوفر' نامی طوفان کےپاکستان کے ساحل سے ٹکرانے کی خبریں تھیں لیکن یہ طوفان عمان کے ساحل تک جا پہنچا تھا۔
سال 2021 میں گلاب نامی طوفان آیاتھا اس کی بھی موجودگی کے سبب کراچی کو ہیٹ ویو کا سامنا رہا تھا تاہم وہ بھی کراچی کے ساحل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔